فوٹو: آئی این پی
الطاف حسین کے خطاب کے بعد فاروق ستار کی پریس کانفرنس کےحوالے سے آصف حسنین نے سوال اٹھایا کہ 23 اگست کو فاروق ستار نے ویڈیو کال کے ذریعے کس سے بات کی تھی۔
پی ایس پی میں شمولیت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ملک کے خلاف نعرے لگانے والوں کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایم کیو ایم کے مزید ارکان اسمبلی بھی پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہوں گے، پارٹی کے بہت سے لوگ اسے چھوڑنے والے ہیں۔
الطاف حسین پر آصف حسنین نے الزام عائد کیا کہ پاکستان کے پیسوں سے لندن میں اربوں کھربوں کی جائیدادیں بنائی گئیں۔
قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفے کا اعلان کرنے والے رہنما کا کہنا تھا کہ 32 سال بعد بھی ایم کیو ایم کا ووٹر پریشان ہے۔
واضح رہے کہ 2 روز قبل آصف حسنین کو ایئر پورٹ پر سیکیورٹی اداروں نے حراست میں لیا تھا بعد ازاں ان کو چھوڑ دیا گیا تھا، اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ میں اسلام آباد جا رہا تھا، ملک چھوڑ کر نہیں جا رہا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ الطاف حسین کے خطاب کے بعد پی ایس پی میں شامل ہونا چاہتا تھا لیکن مصطفیٰ کمال دبئی گئے ہوئے تھے اس لیے شمولیت میں تاخیر ہوئی۔
قبل ازیں پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ قائد ایم کیو ایم الطاف حسین اور فاروق ستار 2 الگ چیزیں نہیں ہیں، متحدہ رہے یا نہ رہے، کوئی فرق نہیں پڑتا، فاروق ستار گرتی ہوئی دیوار کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی کی پی ایس پی نے شمولیت پر مصطفیٰ کمال نے کہا کہ آصف حسنین نے آج الطاف حسین کا مینڈیٹ ترک کر دیا ہے۔
الطاف حسین کے پاکستان مخالف تقریر کے بعد متحدہ کی پالیسی پر مصطفیٰ کمال نے کہا کہ جو کچھ ہو رہا ہے قائد ایم کیو ایم کی مشاورت سے ہو رہا ہے۔
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ فاروق ستار اپنے گھر کے بجائے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں کیوں سوتے ہیں، ان کے ساتھ سیکیورٹی کا اتنا بڑا اسکواڈ کیوں ہوتا ہے، ان کو کس سے خطرہ ہے؟، ان کے پیچھے کیا طالبان لگے ہوئے ہیں، فاروق ستار کو الطاف حسین سے جان کا خطرہ ہے۔
واضح رہے کہ 22 اگست کو کراچی پریس کلب پر بھوک ہڑتال کیمپ میں بیٹھے ایم کیو ایم کے کارکنوں سے خطاب کے دوران پارٹی کے قائد الطاف حسین نے پاکستان کے خالف نعرے لگوائے تھے۔
الطاف حسین نے کہا تھا کہ پاکستان پوری دنیا کے لیے ناسور ہے، پاکستان پوری دنیا کے لیے ایک عذاب ہے، پاکستان پوری دنیا کے لیے دہشت گردی کا مرکز ہے، اس پاکستان کا خاتمہ عین عبادت ہے، کون کہتا ہے پاکستان زندہ باد، پاکستان مردہ باد'۔
ایم کیو ایم کے قائد نے اسی تقریر کے آخر میں کارکنوں کو ٹی وی چینلز پر حملوں کی ہدایت کی جس پر کارکن مشتعل ہوگئے اور انھوں نے ریڈ زون کے قریب ہنگامہ آرائی کی، اس دوران کچھ کارکن نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نیوز کے دفتر میں گھس گئے اور وہاں نعرے بازی کرتے ہوئے توڑ پھوڑ کی جب کہ اس ہنگامہ آرائی کے دوران فائرنگ سے ایک شخص ہلاک بھی ہوا۔
بعدازاں کراچی پریس کلب پر میڈیا سے گفتگو کے لیے آنے والے ایم کیو ایم کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار اور خواجہ اظہار الحسن کو رینجرز نے حراست میں لے لیا تھا، جنہیں 23 اگست کی صبح رہا کیا گیا۔
الطاف حسین نے 22 اگست کو امریکا میں بھی کارکنوں سے خطاب کیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ 'امریکا، اسرائیل ساتھ دے تو داعش، القاعدہ اور طالبان پیدا کرنے والی آئی ایس آئی اور پاکستانی فوج سے خود لڑنے کے لیے جاؤں گا،ہم سے غلطی اور گناہ ہوگیا، اے ہندوؤں! ہم اس سازش کو نہیں سمجھے جو انگریز نے بنائی تھی، ہم اس کا حصہ بن گئے اور جو اس کا حصہ نہیں بنے وہ عیش کر رہے ہیں'۔
ان تقاریر کے بعد الطاف حسین نے معافی بھی مانگی جبکہ ان کا کہنا تھا کہ وہ شدید ذہنی تناو کا شکار تھے اس لیے ایسی باتیں کیں جبکہ اس کے بعد ایم کیو ایم کے قائد نے پارٹی کے تمام اختیارات رابطہ کمیٹی کے سپرد کر دیئے.
ایم کیو ایم کے سربراہ کے پاکستان مخالف تقاریر کے بعد رینجرز اور پولیس نے متحدہ کے مرکز نائن زیرو سمیت سندھ بھر میں دفاتر کو سیل کر دیا، جبکہ غیر قانونی طور پر سرکاری زمین پر بنے ہوئے دفاتر کو مسمار بھی کیا جا رہا ہے۔
23 اگست کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے فاروق ستار نے کہا کہ اگر ذہنی تناؤ کی وجہ سے قائد تحریک الطاف حسین پاکستان مخالف بیانات دے رہے ہیں تو پہلے اس مسئلے کو حل ہونا چاہیے اور چونکہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان میں ہی رجسٹرڈ ہے اس لیے بہتر ہے کہ اب اسے آپریٹ بھی پاکستان سے ہی کیا جائے جبکہ اب ایم کیو ایم کے فیصلے پاکستان میں ہی ہوں گے۔
27 اگست کو ایک اور پریس کانفرنس میں الطاف حسین سے قطع تعلق کرتے ہوئے فاروق ستار نے کہا کہ ہم نے ایک لکیر کھینچ دی ہے، جس کے بعد پارٹی کے معاملات اور ہمارا لندن سے کوئی تعلق نہیں، تو اس کا مطلب ہے ایم کیو ایم کا الطاف حسین سے بھی کوئی تعلق نہیں۔
خیال رہے کہ الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر کے بعد رکن قومی اسمبلی آصف حسنین سے قبل رکن سندھ اسمبلی ارم عظیم فاروقی اور ٹی وی میزبان عامر لیاقت حسین بھی ایم کیو ایم چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں.
واضح رہے کہ کراچی کے سابق میئر (سٹی ناظم) اور ایم کیو ایم کے سابق رہنما مصطفیٰ کمال نے رواں برس 3 مارچ کو ایم کیو ایم سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا، اس موقع پر انیس قائم خانی کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے الطاف حسین پر سنگین نوعیت کے الزامات لگائے تھے۔
بعد ازاں مصطفیٰ کمال نے نئی جماعت 'پاک سرزمین پارٹی' بنائی جس میں ایم کیو ایم کے سینئر رہنما رکن سندھ اسمبلی ڈاکٹر صغیر احمد ، رضا ہارون ، افتخار عالم ، وسیم آفتاب، انیس ایڈووکیٹ، محمد علی بروہی، بلقیس مختار، سید وحید الزماں، محمد رضا عابدی، اشفاق منگی،افتخار احمد رندھاوا اور دلاور حسین شامل ہو چکے ہیں۔
سابق میئر کراچی کی جانب سے مزید افراد کے شامل ہونے کا دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے، ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی پی ایس پی میں شمولیت کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے مصطفیٰ کمال کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
مصطفی کمال 2005 سے 2009 تک متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے کراچی کے نامزد ناظم رہے، ایم کیو ایم نے انھیں 2011 میں سینیٹ کا ٹکٹ جاری کیا تاہم اپریل 2014 میں وہ سینیٹ سے مستعفی ہو گئے اور اس کے بعد سے وہ پارٹی میں مکمل طور پر غیر فعال ہو گئے۔
پاکستان واپسی تک وہ دبئی میں پاکستان کی ایک بہت بڑی ریئل اسٹیٹ کمپنی میں ملازمت کر رہے تھے۔
دوسری جانب انیس قائم خانی ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے کنوینر رہ چکے ہیں، 2013 کے بعد سے وہ پارٹی میں غیر فعال شمار کیے جاتے ہیں جبکہ ڈاکٹر عاصم حسین کیس میں ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے بعد ازاں 19 جولائی 2016 انیس قائم خانی کو گرفتار کر لیا گیا۔