شہداء کے ورثاء اور غازیوں کے نام

اب سوال اٹھتا ہے کہ اس آزمائش کے دورانیے میں ہم کیا کریں؟ کیا ہم اپنے رنج و غم کو غصہ اور نفرت میں تبدیل کر دیں؟

اگر میری آنکھیں آبشار ہوتیں تب بھی ان میں آنسو کم پڑ جاتے۔ میرے شہید دوست مجھ سے بچھڑ گئے ہیں اور بہت سارے شدید زخمی ہیں۔ میں یقیناً آپ ہی کی طرح پہلے تو شدید رنج و غم سے نڈھال ہو گیا پھر بے پناہ غصہ اور پھر مایوسی کا عالم۔

مگر پھر میں نے کلام الٰہی کی طرف رجوع کیااور بہت سے احکامات و کلمات روزِ اجل کی طرح دل کی گرائیوں میں سما گئے۔

شہید مرتے نہیں وہ زندہ ہیں (سورة البقرہ، آیت ١٥٤)۔ شہیدوں کا خون ضائع نہیں ہوتا۔ جس نے ایک انسان کا قتل کیا گویا اس نے تمام انسانیت کو قتل کیا (سورة المائدہ، آیت ٣٢) ۔ اور قاتل ہمیشہ کے لئے دوزخ میں رہیں گے اور اللہ تعالیٰ کا ان پر عذاب اور لعنت پڑتی رہے گی اور بے انتہا سزا ملے گی (سورة النساء ، آیت ٩٣) اور اللہ تعالیٰ ہمیں نصیحت کرتے ہیں کہ مایوس نہ ہوں اور صبر کا دامن نہ چھوڑیں (سورة ھود، آیت ١١٥)۔

قاتلوں نے بے دردی سے قتل کئے۔ قاتلوں کی مقتولین سے کوئی دشمنی نہیں۔ قاتلوں نے اپنے منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے جائے شفاء کا انتخاب کیا۔ قاتلوں نے کوئی تفریق نہ کی۔ ان کی زد میں بوڑھے اور بچے، ان کی زد میں ہر دین و مذہب، ان کی زد میں مرد اور عورت۔ ان کی زد میں قانون اور آئین کے محافظ، ان کی زد میں انسانیت ۔

قاتلوں کو اگر جانوروں سے تشبیہ دیں تو جانور وں کی تضحیک ہو گی۔ قاتلوں کے دل سنگ نہیں کیونکہ پتھروں سے بھی کبھی چشمے پھوٹتے ہیں۔ قاتلوں کے دل نفرتوں اور مایوسیوں کا مجموعہ ہیں۔ انسان، انسانیت سے نفرت، جائے شفاء سے نفرت، قانون کے پاسداروں سے نفرت، قوم اور ملک سے نفرت، اللہ کی مخلوق سے نفرت، دینِ الہیٰ سے نفرت۔

قاتلوں کی مایوسی کہ وہ ہمیشہ کے لئے دوزخ میں مقیم ہوں گے۔ مایوسی کہ وہ شرم سے اپنے چہرے چھپاتے ہیں۔ مایوسی کے بغیر ِ جبر، بغیرِ بندوق، بغیرِ بم ان کے پیغامِ نفرت کی آواز ہی نہیں۔ مایوسی اس بات کی کہ جن مائوں نے انہیں جنم دیا ان کے ہونٹوں سے اگر کوئی دُعا نکلتی ہے وہ یہ کہ ان کو صراطِ مستقیم پر لے آئیں۔ مایوسی اس بات کی کہ جب ان کی کھالیں از حکمِ اللہ تعالیٰ جلیں گی (سورۃ الملک، آیت 11) ۔ شہید جنت کی چھائوں میں بہتے پانی کے ساتھ ہمیشہ اور ہمیشہ آرام پذیر رہیں گے(سورۃ الغاثیۃ آیت 10 اور 12)۔

اب سوال اٹھتا ہے کہ اس آزمائش کے دورانیے میں ہم کیا کریں؟ کیا ہم اپنے رنج و غم کو غصہ اور نفرت میں تبدیل کر دیں؟ کیا ہم شہیدوں کے خون کو ماتمی چھاپ تک ہی محدود کر دیں؟

شہدا ءاور زخمی پاسبانِ آئین و قانون تھے اور ہیں۔ مفلسوں کے ترجمان تھے اور ہیں۔ انصاف کی فراہمی میں مدد کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ جی شہدا ءبھی کیونکہ وہ آج بھی زندہ ہیں، کل بھی زند ہ رہیں گے۔ ان کی نشست ہمارے ساتھ ہے۔ ان کا خون ہمارے قلموں میں اُتر آیا ہے۔

انہوں نے اپنے خون کے عطیے سے بھائی چارے،انسان دوستی اور قانون پر عمل کرنے کی مثال قائم کی اور اب اس مشکل وقت میں ان کی نظریں ہم پر ہیں کہ ہم بھی بھائی چارے، انسان دوست رویہ اور قانون کی پاسداری کر سکیں گے؟ کیا ہم انصاف کو زیادہ احسن طریقے سے مہیا کر سکیں گے۔

میرے شہید دوست آپ نے مجھے، ہم سب کو ، بہت ہی مشکل امتحان میں ڈال دیا ہے۔ میں پروردگار سے دُعا گو ہوں کہ مجھے اور شہدا ءکے ورثاء اور زخمیوں کو صبرعطا فرمائے اور آپ کے قانون و علم کے محبت کے جذبے کو مستحکم کرے اور آپ کے فراہمیِ انصاف کے اہداف کو ہماری مشلِء راہ بنائے۔ آمین۔

آپ سب کا مخلص

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

مین پیج پر جانے کے لیے کلک کریں