سانحہ کوئٹہ: خاموش ہوجانے والی 54 صدائیں
کالے کوٹ اور خون: 8 اگست 2016 کی دل دہلا دینے والی صبح کوئٹہ کے سول ہسپتال کے باہر گرد اور دھوئیں میں صرف یہی نظر آ رہا تھا۔
اس دن بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی کو نامعلوم افراد نے کوئٹہ میں فائرنگ کرکے قتل کر دیا۔ ان کے قتل کی خبر جیسے ہی پھیلی تو شہر بھر کے وکلاء احتجاج کرنے کے لیے کوئٹہ سول ہسپتال پہنچنا شروع ہو گئے۔ اس واقعے سے دو ماہ قبل ایک اور سینئر وکیل اور استاد کو کوئٹہ میں قتل کر دیا گیا تھا جس کے بعد وکلاء کے پاس احتجاج کے سوا کچھ نہیں بچا تھا۔
لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور جیسے ہی وکلاء کا مجمع سول ہسپتال کے باہر پہنچا ایک خودکش بمبار ان کے بیچ گھسا اور خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔
کوئٹہ کے ایک وکیل برخوردار خان نے ڈان کو بتایا کہ: "پانچ سال تو ہمیں صرف اس بات کا اندازہ لگانے میں لگیں گے کہ ہم نے کیا کھویا ہے۔"
دھماکے میں 70 افراد ہلاک ہوئے جن میں سے 54 کا تعلق وکلاء برادری سے تھا۔ یہاں ہم ان وکلاء جو کہ کسی کے شوہر، والد یا بیٹے تھے، کی زندگیوں پر ایک نظر ڈالیں گے۔