100 سال بعد زمین کیسی نظر آئے گی؟
آپ ممکنہ طور پر اس بات سے آگاہ ہوں گے کہ ہر گزرتا مہینہ پہلے سے زیادہ گرم ہوتا جارہا ہے، تاہم اگر آپ واقف نہیں تو جان لیں کہ 2016 میں جنوری سے لے کر دسبمر تک ہر مہینہ انسانی تاریخ کے گرم ترین مہینے ثابت ہوئے ہیں۔
2016 کے دوران دنیا بھر کا اوسط درجہ حرارت صنعتی عہد سے قبل کے درجہ حرارت کے مقابلے میں 1.2 ڈگری زیادہ رہا۔
اس وجہ سے ہم بہت تیزی سے 1.5 ڈگری درجہ حرارت کے اس ہدف کے قریب پہنچ گئے ہیں جو ویسے تو سائنسدانوں نے 21ویں صدی کے آخر تک کے لیے طے کیا تھا تاکہ گلوبل وارمنگ کے اثرات کی روک تھام کی جاسکے تاہم اس میں ناکامی لگ بھگ یقینی نظر آتی ہے۔
ناسا کے اسپیس اسٹیڈیز کے ڈائریکٹر گیون اسکمیڈٹ کے مطابق عالمی سطح پر گرمی میں اضافہ رکنے میں نہیں آرہا جبکہ لگتا ہے کہ ہر چیز نظام کو بھوننے میں لگی ہوئی ہے۔
آسان الفاظ میں اگر کسی طرح کل زہریلی گیسوں کا اخراج صفر تک بھی پہنچ جائے تو بھی انسانوں کے باعث آنے والی موسمیاتی تبدیلیوں کا عمل صدیوں تک جاری رہے گا اور ہم سب جانتے ہیں کہ زہریلی گیسوں کا اخراج آج یا کل رک نہیں سکتا۔
تو ان حالات میں اس کو سست کرنا ہی کسی حد تک تکلیف دہ مراحل سے بچنے کے لیے اپنایا جاسکتا ہے۔
ہوسکتا آپ کے لیے تسلیم کرنا مشکل ہو مگر موجودہ حالات برقرار رہے تو اگلے 100 برس میں دنیا کا کیا حال ہوگا۔
ماہرین کے مطابق طویل المعیاد مقصد کے طور پر درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنا ناممکن ہے اور موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یقینی ہے کہ ہم 2030 تک ہم اس طے کردہ ہدف کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جائیں گے۔