مشکلیں ان پر پڑیں اتنی کہ آسان ہو گئیں
4 مارچ 2009 کی صبح اننگز کا آغاز یونس خان کی ایک اننگ کے ساتھ ہونا تھا۔ ایک ہفتہ قبل ہی انہوں نے ٹرپل سنچری داغ کر پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنی کارکردگی کا بہترین مظاہرہ کیا تھا۔
مگر یونس خان تو کریز پر ہی نہ آئے۔ ایسا نہیں ہونا تھا۔
حالانکہ اُس موقع پر سری لنکن ٹیم اور آئی سی سی آفیشلز حملے کا شکار ہوئے تھے لیکن پاکستان ٹیم اس کے بعد سے مسلسل شکار ہو رہی ہے۔
کرکٹ کی دیوانی عظیم اور بافخر قوم دنیائے کرکٹ میں اپنے ملک میں کرکٹ کھیلنے سے محروم رہنے والی پہلی ٹیم بن گئی۔
انگلینڈ میں ان کے پہلے نیوٹرل ٹیسٹ کے دوران کپتان نے لارڈز کے میدان میں جاری میچ دوران ہی ٹیم کی قیادت چھوڑ دی۔ اسی دورے پر کپتان کی جگہ آنے والا اپنے ساتھ دنیائے کرکٹ کے دو بہترین باؤلرز کے ساتھ ایک گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔
غدار اور دہشت گرد دونوں ہی انہیں شکست دینے کی کوششوں میں مصروف تھے۔
کرکٹ بورڈ میں آفریدی کی اننگز سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے تبدیلیاں ہو رہی تھیں۔ ان کے سینیٹرز اٹھ کھڑے ہوئے اور انہیں دھوکے باز پکارنے لگے۔ کھلاڑیوں پر پابندی عائد کر کے واپس اٹھا بھی لی گئی اور اس کی وجوہات کے بارے میں زیادہ بہتر وہی احمق جانتے ہیں جنہوں نے انہیں سینیٹر منتخب کیا تھا۔
ان کے پاس کوئی پروفیشنل ڈھانچہ نہیں تھا۔
ٹیم کی خراب کارکردگی یا خراب کارکردگی سمجھنے جانے کے سبب کوچز کے آنے اور جانے کا سلسلہ جاری رہا مگر اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ کرکٹ ڈھانچے کو دوبارہ کھڑا کرنے سے آسان کام کوچ کو برطرف کرنا ہوتا ہے۔
غداروں نے انہیں اندر اور دہشتگردوں نے باہر سے ختم کرنے کی کوشش۔ انہیں اپنے بورڈ کی جانب سے باقاعدگی سے سرپرستی حاصل نہ تھی اور ایک ایسا دور جب ہوم ٹیمیں اپنا لوہا منوا رہی تھیں تب ان کے پاس ہوم ہی نہیں تھا۔
ایسی صورتحال میں تو انہیں ختم ہوجانا چاہیے تھا۔
ایک ایسا آدمی جو کبھی نظر انداز کردیا گیا تھا، اس نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ یہ پاکستان جیسے ملک کے بارے میں بہت کچھ بیان کر دیتی ہے۔ اس تمام صورتحال کے باوجود بھی پاکستان جیسا ملک مصباح جیسا کھلاڑی پیدا کر پایا مگر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مصباح کو نظر انداز بھی کیے رکھا۔ وہ کوئی ڈکٹیٹر یا آمر تو نہیں تھے، وہ دکھاوا بھی نہیں کرتا تھے، وہ کوئی اگلا نوجوان کھلاڑی بھی نہیں تھے۔ جب وہ ٹوٹی بکھری ٹیم کو دوبارہ ترتیب کرنے میں لگے تھے تب پاکستان کے کرکٹ شائقین ان کا موازنہ ’’ٹک ٹک’’ سے کر رہے تھے۔
وہ رنز بناتے ہوئے دو تین سال گزارنے کے بعد کمنٹری بوتھ کا رخ کر سکتے تھے جہاں وہ ان کھلاڑیوں پر سوال کھڑے کرتے رہتے جن کی کبھی وہ رہنمائی کر رہے تھے۔
اس سب کے بجائے انہوں نے اپنی بیٹنگ جاری رکھی۔ مصباح اپنی عمر کی چالیسویں دہائی میں ہیں۔ لیکن ہمیں ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ وہ کتنا اور عرصہ اسی طرح کھیلتے رہیں گے۔ اگر وہ اس ٹیم میں اپنے لائق جانشین کے منتظر ہیں تو پھر شاید انہیں اپنی عمر کی پچاسویں دہائی تک بھی کھیلنا پڑ سکتا ہے۔ جس کی وجہ مصباح پر ٹیم کا اعتماد ہے۔
ہاں ایسا جسمانی یا مادی طور پر تو ممکن نہیں ہو سکے گا مگر جو کچھ انہوں نے اپنے ملک کے لیے کیا وہ بھی تو ممکن نہیں تھا۔