دو طبقات کو تقسیم کرنے والی دیوار۔ — فوٹو سید طاہر جمال۔
ان سالوں کے دوران ڈی ایچ اے کورنگی روڈ کے ساتھ موجود قیوم آباد کی رفاہی زمین اور آبادی کی توسیع کے لیے مختص زمین پر اپنا "حق" جتاتا رہا۔
بھلے ہی گذشتہ 20 سالوں کے دوران قیوم آباد کے رہائشیوں نے ڈی ایچ اے کی جانب سے زمین پر زبردستی قبضہ کرنے کی ہر کوشش کی مزاحمت کی ہے، مگر کے ایم سی، ڈی ایچ اے کراچی کی جانب سے شدید دباؤ کی وجہ سے ان سہولیات کی تعمیر نہیں کر سکی جس کے لیے اس نے بجٹ رکھا تھا، اور جس کا قیوم آباد مستقل آبادی کے طور پر حقدار ہے۔
کے ایم سی، کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کو سب اسٹیشن کے لیے زمین نہیں دے سکی اور نہ ہی کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو پمپنگ اسٹیشن کے لیے جگہ دے سکی تاکہ عوام کی زندگیاں آسان بنائی جا سکیں۔ آبادی کے ایک نوجوان رہائشی شاہد نے تلخ لہجے میں بتایا کہ "جب آپ کے پاس پانی نہ ہو تو آپ ٹینکرز سے خرید لیتے ہیں۔ مگر ہم یہاں گدھا گاڑیوں پر فروخت کیے جانے والے جیری کینز سے زیادہ کی استطاعت نہیں رکھتے۔ یہ محدود پانی یا تو کھانا پکانے کے لیے استعمال ہوتا ہے یا خواتین اپنی ضروریات کے لیے استعمال کرتی ہیں۔"
جب 1999 میں جنرل مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹا، تو ڈی ایچ اے نے اپنے پسندیدہ 53 ایکڑز حاصل کرنے کے لیے بورڈ آف ریوینیو پر دباؤ ڈالنے کی اپنی کوششوں میں اضافہ کر دیا۔ اور اگر یہی کافی نہیں تھا تو سندھ حکومت کے افسران کے مطابق کور کمانڈر کے بھائی سید غضنفر علی شاہ کا بورڈ آف ریوینیو میں بہت اثر و رسوخ تھا۔ کے ایم سی کے ایک مایوس افسر نے کہا کہ "پہلے تو ہم ڈی ایچ اے کی مزاحمت کرتے رہے، مگر جب اس طرح کے بااثر لوگوں نے اپنے تعلقات کا استعمال کرنا شروع کیا، تو ہم کیا کر سکتے تھے؟"
اختیارات کا ناجائز استعمال
زمین پر قبضہ چاہے کوئی شخص کرے یا ادارہ اس سازش میں ہمیشہ ہی اہم حکومتی عہدے دار ملوث ہوتے ہیں جو موقع فائدہ اٹھانے کیلئے تیار رہتے ہیں۔
قیوم آباد پر معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں، دفاعی حکام کی زور آزمائی اس وقت کامیاب ہوگئی جب 2004 میں بے ایمان سرکاری افسران نے ان مطالبات تسلیم کرلیے۔
اس وقت کے چیف سیکریٹری سندھ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے سیکریٹری جی اے اینڈ سی اعجاز حسین قاضی نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ ارباب رحیم سے مںظوری کیلئے ایک سمری تیار کی( ڈائری نمبر 411 مورخہ 23 اکتوبر 2004) جس میں لوکل گورنمنٹ کی جانب سے قیوم آباد کچی آبادی کا رقبہ دوبارہ 109.36 ایکڑ کرنے کا ذکر تھا اور عملی طور پر اس کا مقصد 53.22 ایکڑ زمین ڈی ایچ اے کراچی کے حوالے کرنا تھا۔
یہ سمری اسی روز چیف سیکریٹری کو موصول ہوگئی اور اسے لوگل گورنمنٹ کے داخلی رجسٹر میں 6005 کے نمبر سے شامل کرلیا گیا۔
سندھ حکومت کے ایک ریٹائرڈ سیکریٹری نے بتایا کہ لوکل گورنمنٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے مخالفت کا اندازہ ہوتے ہی اس سمری کو فوری طور پر چیف سیکریٹری کے دفتر سے ہٹا دیا گیا۔
بعد ازاں اسی طرح کی ایک اور سمری جس پر وہی نمبر درج تھا چیف سیکریٹری کی جانب سے براہ راست وزیر اعلیٰ کو بھجوادی گئی جوکہ رولز آف بزنس کی خلاف ورزی تھی کیوں کہ اس پر محکمہ لوکل گورنمنٹ کے ریمارکس نہیں لیے گئے تھے۔
باوجود اس کے وزیر اعلیٰ سے منظوری کے بعد اس سمری کو اس وقت کے وزیر بلدیات ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر کو بھیج دیا گیا تاکہ وہ اپنے محکمے کی جانب سے اس پر عمل کراسکیں۔
سندھ کچی آبادی اتھارٹی نے 2 فروری 2005 کو قیوم آباد کی حدود کے کا دوبارہ تعین کیا اور اسے 109.36 ایکڑ تک محدود کردیا گیا۔
اس حقیقت کے باوجود کہ قیوم آباد کے رہائشیوں کیلئے بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے حوالے سے منصوبہ بندی اور اس کی منظوری سندھ حکومت 18 برس قبل ہی دے چکی ہے، قیوم آباد کی حدود کا تعین دوبارہ کردیا گیا۔
سندھ حکومت کے ہاؤسنگ ٹاؤن پلاننگ اور لوگل گورنمنٹ اینڈ رورل ڈیویلپمنٹ ڈپارٹمنٹ نے 13 نومبر 1986 کو اس کا نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا اور 12 فروری 1987 کو سندھ حکومت کی جانب سے سرکاری گزٹ میں بھی شائع کیا گیا۔
کے ایم سی کے حکام کا کہنا ہے کہ جس طرح مذکورہ زمین ڈی ایچ اے کے حوالے کی گئی اس سے لگتا ہے کہ ایسا صرف خاکی وردی والوں کے دباؤ کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ سندھ حکومت کے اعلیٰ عہدے داروں کو کام کے بدلے اس علاقے میں پلاٹس الاٹ کرکے بھی نوازا گیا۔
چند ماہ قبل ڈان کے انکشافات کے بعد مبینہ طور پر آرمی چیف کے حکم پر گزری کریک پر مینگروو کے جنگلات کے 530 ایکڑ رقبے کی غیر قانونی الاٹمنٹ کو بھی منسوخ کردیا گیا تھا اور اس الاٹمنٹ سے بھی بالآخر ڈی ایچ اے کو ہی فائدہ پہنچنا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وزارت دفاع نے جب پہلی بار کراچی میں زمین کی الاٹمنٹ کی درخواست دی تھی تو موقف اختیار کیا تھا کہ اسے شہداء کی بیواؤں اور بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جائے گا تاہم بعد میں موقف تبدیل ہوگیا اور کہا گیا کہ 'زمین فوج کے ان اہلکاروں کے لیے استعمال کی جائے گی جن کی آمدنی زیادہ نہیں اور وہ اپنے سر پر چھت کا سایہ رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔'بہرحال سندھ بی او آر کے لینڈ یوٹیلائزیشن کے سابق رکن کا کہنا ہے کہ قیوم آباد کی جو زمین ڈی ایچ اے کو دی گئی اس کے الاٹیز معروف کمرشل ڈویلپرز اور سرمایہ کار ہیں جن کے پاس پیسوں کی کوئی کمی نہیں۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ قانون کے مطابق زمین کا وہ حصہ جسے ایک بار بنیادی سہولتوں کی فراہمی کیلئے مختص کردیا جائے اسے تجارتی یا رہائشی مقاصد کے لئے استعمال کرنا تو دور کسی اور طرح کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کیلئے بھی استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
سنگین مذاق تو یہ ہے کہ 'ہمایوں کمرشل'(جو اس زمین پر واقع ہے جو قانونی طور پر قیوم آباد کچی آبادی کی ہے) کے پلاٹس کو جو نمبرز جاری کیے گئے تھے انہیں کور کمانڈر اطہر علی کے دور میں تبدیل کیا گیا اور ان پلاٹ نمبروں میں 'کیو کے' کے حروف شامل کیے گئے۔
آج صورتحال یہ ہے کہ بنیادی سہولتوں کی فراہمی کیلئے مختص کردہ تمام زمین الاٹ کی جاچکی ہے اور ڈی ایچ اے کراچی کے دفتر میں اس کی خرید و فروخت بھی جاری ہے۔
مزید برآں ڈان کو دستیاب دستاویز کے مطابق ڈی ایچ اے نے بعض الاٹیز کو ان تجارتی پلاٹس کی فروخت محض 4 ہزار روپے فی مربع گز کے عوض کی جبکہ آج یہ 2 لاکھ روپے فی مربع گز میں فروخت ہورہے ہیں اور اس حساب سے ایک ایکڑ زمین کی قیمت ایک ارب روپے تک بنتی ہے۔
ڈی ایچ اے کراچی فیز 8 میں 1987 کے ایک عام الاٹی سے ڈیویلپمنٹ چارجز کی مد میں 16 ہزار روپے فی مربع گز وصول کرتا ہے۔
اس کے علاوہ ڈی ایچ اے نے فیز 8 دو دریا کے قریب رہائشی پلاٹس کو کمرشل میں تبدیل کرنے کیلئے ایک لاکھ 20 ہزار روپے فی مربع گز وصول کیے۔
پرتعیش بنگلوں میں رہنے والوں کے نزدیک قیوم آباد کے مکینوں کو ان کی زمین واپس ملنے کے امکانات بہت ہی کم ہیں کیوں کہ ڈی ایچ اے کراچی نے تو اب 5 ہزار فٹ طویل فصیلیں بھی کھڑی کردی ہیں جو اسے کچی آبادی سے علیحدہ کرتی ہیں۔
ڈی ایچ اے کے ایڈمنسٹریٹر بریگیڈیئر زبیر احمد سے جب قیوم آباد کے رہائشیوں کے بنیادی سہولتوں تک رسائی کے حق کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ 'میں انسانی بنیادوں پر اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ بنیادی سہولتیں ہر علاقے میں ہونی چاہئیں'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر سندھ حکومت یہ کہہ دے کہ زمین ڈی ایچ اے نہیں بلکہ کچی آبادی والوں کی ہے تو ہم اپنا رویہ تبدیل کردیں گے لیکن جب تک سندھ حکومت ایسا نہیں کہتی بطور ایڈمنسٹریٹر ڈی ایچ اے میں اس زمین سے دستبردار نہیں ہوسکتا کیوں کہ میں ڈی ایچ اے کے مفادات کا نگہبان ہوں اور جو ذمہ داری مجھے دی گئی ہے مجھے وہ ادا کرنی ہے۔
یاد رہے کہ چند ماہ قبل ڈان کے انکشافات کے بعد مبینہ طور پر آرمی چیف کے حکم پر گزری کریک پر مینگروو کے جنگلات کے 530 ایکڑ رقبے کی غیر قانونی الاٹمنٹ کو بھی منسوخ کردیا گیا تھا اور اس الاٹمنٹ سے بھی بالآخر ڈی ایچ اے کو ہی فائدہ پہنچنا تھا۔
کیا قیوم آباد کے مکین اب یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ اعلیٰ حکام معقول معیار زندگی کے قانونی حق کیلئے کی جانے والی ان کی جدوجہد کا نوٹس لیں گے؟
ہیڈر فوٹو بشکریہ فہیم صدیقی
یہ تفصیلی خبر 22 اگست کو روزنامہ ڈان میں شائع ہوئی۔