دنیا

افغان طالبان اور داعش کے درمیان معاہدہ، روس کے خدشات

ملک کی خراب سیاسی اور سیکیورٹی صورت حال میں داعش اور طالبان کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ پریشانی کا باعث ہے، روس

افغانستان میں دو اہم مخالف عسکریت پسند گروپوں، طالبان اور داعش کے درمیان ہونے والے مبینہ جنگ بندی کے معاہدے پر روس نے خدشات کا اظہار کردیا۔

افغان خبر رساں ادارے خاما کی ایک رپورٹ کے مطابق روسی وزارت خارجہ کی خاتون ترجمان ماریہ زاخاروا نے کہا ہے کہ افغانستان میں جاری خراب سیاسی اور سیکیورٹی صورت حال کے دوران داعش اور طالبان کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ پریشانی کا باعث ہے۔

افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار میں داعش اور طالبان کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں کے باعث یہاں پیدا ہونے والی خراب سیکیورٹی صورت حال کی نشاندہی کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'اس کے علاوہ طالبان، ملک کے شمالی اور جنوبی حصوں میں بھی مشترکہ کارروائیوں کا آغاز کرچکے ہیں'۔

ترجمان نے افغانستان کی اتحادی حکومت کے درمیان جاری تنازع پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

مزید پڑھیں: افغان صوبے قندوز کے اہم ضلع پر طالبان کا قبضہ

یاد رہے کہ حالیہ کچھ ماہ سے افغان اور امریکی فورسز کی کارروائیوں کے باعث بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے داعش اور طالبان کے درمیان ایک عرصے سے جاری جنگ کے اختتام کی خبریں منظر عام پر آئی ہیں۔

خیال رہے کہ دونوں گروپوں کے درمیان گذشتہ سال مسلح تنازع کا آغاز ہوا تھا، جو مبینہ طور پر رواں ماہ صوبہ ننگرہار میں مبینہ طورپر ایک معاہدے کی صورت میں اختتام پذیر ہوگیا۔

ایک سال سے زائد عرصے تک جاری رہنے والے اس تنازع میں دونوں گروپوں کے سیکڑوں جنگجو ہلاک اور زخمی ہوئے، جن میں اہم کمانڈرز بھی شامل ہیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ ایک ماہ قبل افغان نیشنل آرمی (اے این اے) کے کمانڈوز اور افغانستان میں موجود امریکی اسپیشل فورسز نے ننگرہار میں داعش کے خلاف اہم آپریشن کا آغاز کیا تھا۔

اس آپریشن کے آغاز کے ابتدائی دنوں میں ہی عسکری ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ مذکورہ آپریشن کے بعد افغان طالبان اور داعش کے درمیان جھڑپوں کی خبریں نہ آنا تشویشناک ہے جس کے بعد یہ اندازہ بھی لگایا جانے لگا کہ دونوں گروپوں کے درمیان جنگ بندی کیلئے بات چیت جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: داعش-طالبان جھڑپوں سے امریکا کو تشویش

دو سال قبل 14 اکتوبر 2014 کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ترجمان شاہد اللہ شاہد اور پانچ دیگر طالبان کمانڈرز نے داعش میں شمولیت کا اعلان کرتے ہوئے 2013 میں ٹی ٹی پی کے نئے بنائے جانے والے سربراہ ملا فضل اللہ کی اتھارٹی ماننے سے انکار کر دیا تھا۔

مذکورہ اعلان کے بعد اس گروپ (داعش) خراسان نے افغانستان کے مختلف اضلاع میں اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔

دسمبر 2014 میں امریکا کی اتحادی نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد سے افغانستان میں طالبان کی جانب سے سیکیورٹی فورسز اور دیگر اہم مقامات پر حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔

واضح رہے کہ افغانستان میں 1996 سے 2001 کے دوران افغان طالبان نے افغانستان میں اپنی حکومت امارت اسلامیہ قائم کی تھی اور وہ ایک مرتبہ پھر ملک کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے جنگ میں مصروف ہیں۔