عراق: قتلِ عام میں ملوث 36 افراد کو پھانسی
بغداد : عراق میں 2014 میں 1700 زیر تربیت فوجیوں کے قتل میں ملوث داعش سے وابستہ 36 افراد کو پھانسی دے دی گی۔
داعش سے منسلک یہ تمام افراد 2014 میں صوبہ تکریت کے قریب واقع امریکی اڈے پر زیر تربیت فوجیوں کو اغوا کرنے کے بعد قتل کرنے میں ملوث تھے۔
ان افراد کو اس وقت اس علاقے پر قابض داعش نے قتل عام کی ذمہ داری قبول کی تھی جبکہ ان کو مارنے کی ویڈیو جاری کی تھی جس میں اکثر افراد کو سر کے پچھلے حصے میں گولی مارنے کے فوراً بعد یکے بعد دیگرے دریا میں پھینک دیا گیا جبکہ بڑی تعداد میں فوجیوں کی اجتماعی قبریں بھی دریافت ہوئی تھیں۔
مزید پڑھیں: ترکی: شادی کی تقریب میں دھماکا، 50 افراد ہلاک
صوبہ ذيقار کے گورنر کے ترجمان عبدالحسن داؤد نے کا کہنا تھا کہ قتل عام میں ملوث 36 افراد کو صوبائی دارالحکومت نصیریا کی جیل میں پھانسی دی گئی۔
ترجمان مزید بتایا کہ پھانسی کی نگرانی کیلئے ذیقار کے گورنر یحییٰ الناصری اور چیف جسٹس حیدر الزمیلی بھی موجود تھے۔
عراق کے صدر کی جانب سے پھانسی کی منظوری دیئے جانے کے بعد ان افراد کو گزشتہ ہفتے نصیریا منتقل کیا گیا تھا۔
گزشتہ ماہ بغداد میں ہونے والے بم دھماکے میں 300 سے زائد کی ہلاکت کے بعد وزیر اعظم حیدر العابدی نے کہا تھا کہ وہ دہشت گردی کے جرائم میں سزائے موت پانے والوں کو جلد از جلد تختہ دار پر لٹکانا چاہتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستانی سول اور فوجی قیادت کی جاسوسی کا انکشاف
ترجمان نے بتایا کہ مرنے والے 1700 میں سے 400 فوجیوں کا تعلق ذیقار سے تھا۔
عبدالحسن داؤد نے کہا کہ پھانسی کی سزا کے وقت مرنے والوں کے درجنوں عزیز و رشتے دار بھی موجود تھے، وہ ان لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھ کر خوش تھے۔
ان میں سے ایک 30 سالہ خاتون نجلہ شاب بھی تھیں جن کے شوہر کو قتل عام کے دوران مار دیا گیا تھا۔
نجلہ نے کہا کہ خدا کا شکر ہے، لوگوں کو مارنے، انہیں دریا میں پھینکنے اور زندہ گاڑنے کے بدترین جرم کی مناسب سزا دی گئی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں نے سزائے موت دینے کے اقدام پر سخت تنقید کی ہے جہاں اس سے قبل مئی میں بھی 22 افراد کو تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا۔