اغوا کی افواہیں پولیس کو بدنام کرنے کی سازش ہے،اے آئی جی کراچی
کراچی: ایڈیشنل انسپیکٹر جنرل (اے آئی جی) کراچی مشتاق مہر نے شہر سے بچوں اور لڑکیوں کے اغوا کی افواہوں کی تردید کرتے ہوئے انہیں پولیس کو بدنام کرنے کی سازش قرار دے دیا۔
اے آئی جی کراچی مشتاق مہر کا کہنا تھا کہ چند عناصر کی جانب سے شہر سے بڑے پیمانے پر کم عمر بچوں اور لڑکیوں کے اغوا کی رپورٹس حقائق پر مبنی نہیں، جبکہ ان گمراہ کن رپورٹس کا مقصد جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سرگرم پولیس کا دھیان بھٹکانا اور اس کی ساکھ خراب کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہر کے پوش علاقوں سے بازیاب ہونے والے بچوں کو منظم منصوبہ بندی کے تحت اغوا کیے جانے کے حوالے سے رپورٹس میں کوئی صداقت نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور میں بچوں کے اغوا کے حقائق اور شبہات
سٹی پولیس کے ترجمان نے اس حوالے سے کہا کہ بچوں کے اغوا سے متعلق پھیلائی جانے والی معلومات بدنیتی پر مبنی ہیں، جن کا مقصد والدین کے ذہنوں میں بچوں کے حوالے سے خوف پیدا کرنا اور خاص طور پر پولیس و رینجرز کو بدنام کرنا ہے۔
پولیس کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں عوام سے کہا گیا ہے کہ وہ ان افواہوں پر کان نہ دھریں اور کسی بھی مشکوک سرگرمی کی صورت میں پولیس ہیلپ لائن 15 پر اطلاع دیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ چند روز سے کراچی کے مختلف بالخصوص پوش علاقوں سے بچوں کے اغوا کی خبریں منظرعام پر آرہی ہیں۔
ان رپورٹس کے بعد عوام میں تشویش پائی جاتی ہے، جس کے باعث کئی علاقوں میں مبینہ اغوا کاروں پر تشدد کے متعدد واقعات بھی پیش آچکے ہیں۔
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے سرکاری ہسپتالوں سے نومولود بچوں کے اغوا کے بھی کئی واقعات پیش آئے۔
یہ بھی پڑھیں: نومولود بچوں کو اغوا کرکے فروخت کرنے والا گروہ گرفتار
نومولود بچوں کے اغوا کے متعدد واقعات کے بعد وہاں کی پولیس حرکت میں آئی اور اس نے نومولود بچوں کے اغوا اور پیسوں کے عوض انہیں فروخت کرنے والے 10 رکنی گروہ کو بھی گرفتار کیا۔
گزشتہ چند ماہ میں صوبہ پنجاب میں بھی بچوں کے اغوا کے کئی واقعات پیش آئے، تاہم پنجاب کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس مشتاق سکھیرا کا چند روز قبل کہنا تھا کہ صوبے کے مختلف علاقوں سے 2011 سے 2016 کے دوران اغواء یا لاپتہ ہونے والے تقریباً ساڑھے 6 ہزار میں سے 98 فیصد بچے گھر واپس آچکے ہیں، جبکہ صرف 132 بچے ایسے ہیں جو اب بھی لاپتہ ہیں۔