شاہ زیب قتل کیس:’شاہ رخ جتوئی جرم کے وقت نابالغ تھے‘
کراچی: سندھ ہائیکورٹ میں شاہ زیب قتل کیس میں شاہ رخ جتوئی کے وکیل کی جانب سے دائر کی گئی نظر ثانی کی درخواست کی پر سماعت میں وکلاء کے دلائل سنے گئے۔
دلائل پیش کرتے ہوئے مجرم شاہ رخ جتوئی کے وکیل ایڈووکیٹ فاروق ایچ نائک نے کہا کہ ان کے موکل جرم کے وقت نابالغ تھے، جس کی بنا پر ان پر انسداد دہشت گردی کا قانون لاگو نہیں ہوتا، انھوں نے عدالت سے استدعا کی کہ کیس کی دوبارہ سماعت ایک ملزم کی حیثیت سے عام عدالت میں کی جائے کیونکہ شاہ رخ جتوئی جرم کے وقت بالغ نہیں تھا۔
جسٹس عبدالرسول میمن کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، عدالت نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد کیس کی سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔
یہ بھی پڑھیں : شاہ زیب قتل کیس: شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو سزائے موت
اس سے قبل اسسٹنٹ پروسیکیوٹر جنرل محمد اقبال سومرو نے دلائل پیش کرتے ہوئے نظر ثانی کی درخواست کی سختی سے مخالفت کی۔
واضح رہے کہ سکندر جتوئی کے بیٹے شاہ رخ جتوئی اور ان کے دوست نواب سراج علی تالپور سمیت دیگر 2 ملزمان کو ڈی ایس پی اورنگزیب کے 20 سالہ بیٹے شاہزیب کے قتل کے جرم میں 7 جون 2013 کو سزائے موت سنائی گئی تھی، شاہزیب کو 25 دسمبر 2012 کو ڈیفنس میں ان کی رہائش گاہ کے قریب قتل کیا گیا تھا۔
شاہ رخ جتوئی کے بیرون ملک فرار ہونے کی خبریں اخبارات اور ٹی وی چینلز پر نشر ہونے کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری نے اس معاملے پر از خود نوٹس لیا تھا۔
مزید پڑھیں : شاہ زیب قتل کیس: مرکزی ملزم عدالت میں پیش
اس واقعے پر شہریوں نے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا تھا، جس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کو پولیس کی نااہلی کا نوٹس لیتے ہوئے قاتل کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے تھے۔
اس واقعے کے بعد ملک میں بڑے پیمانے پر بحث شروع ہو گئی تھی، جس میں سندھ کے طاقتور جاگیرداروں اور اشرافیہ کے جرائم کی جوابداری پر سوال اٹھایا گیا تھا۔
کیس کی تیزی سے ہونے والی سماعت میں انسداد دہشت گردی عدالت کے جج غلام مصطفیٰ میمن نے شاہ رخ جتوئی، شریک ملزم نواب سراج تالپور اور غلام مرتضیٰ لاشاری کو سزائے موت جبکہ ایک ملازم کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
یہ بھی پڑھیں : شاہ زیب قتل کیس: مرکزی ملزم گرفتار
سندھ ہائی کورٹ میں موجود کرمنل لاء کے سیکشن 345(2) کے تحت عدالت مجرم کو مقتول کے لواحقین سے صلح کا قانونی حق دیتی ہے جس میں قصاص اور دیت کی صورت موجود ہے۔
استغاثہ کا کہنا تھا کہ شاہزیب کا مجرمان سے ان کی چھوٹی بہن کو چھیڑنے کی وجہ سے جھگڑا ہوا تھا، جس کے بعد اس مسئلے کو بڑوں کی جانب سے حل کرلیا گیا تھا، لیکن مجرمان نے مقتول کی گاڑی پر فائرنگ کر کے اسے قتل کردیا گیا۔
اس وقعے کا مقدمہ (12/591) مقتول شاہزیب کے والد کی مدعیت میں پاکستان پینل کورٹ کے سیکشن 302،109،34 کے تحت درج کروایا گیا تھا، تاہم دوران تفتیش انسداد دہشت گردی کے 1997 کے قانون کا سیکشن 354 اور سیکشن 7 بھی ایف آئی آر میں شامل کر لیا گیا۔
غلام مرتضیٰ لاشاری کی جانب سے مقتول کی بہن کے ساتھ بدسلوکی کے بعد واقعہ پیش آیا، دوران سماعت شاہزیب کی بہن نے عدالت کو ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بارے میں بیان دیا کہ وہ شادی کی ایک تقریب سے واپس آرہی تھیں جب ملزمان نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی۔
شاہزیب کی بہن نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ انھوں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بارے میں فوراً اپنی والدہ کو فون کے ذریعے اطلاع دی۔
عدالت میں ان کی والدہ نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اس واقعے کی اطلاع ملتے ہی شاہزیب کو گھر سے روانہ کیا تھا۔
شاہزیب کا جائے وقوع پر نواب سراج تالپور کے ملازم سے جھگڑا ہوا، شاہزیب کی والدہ نے معاملے کو ختم کرنے کیلئے اپنے بیٹے کو ملزمان سے معافی مانگے کو بھی کہا تھا۔
شاہزیب نے وہی کیا جو ان کی والدہ نے ان سے کہا لیکن ملزمان نے ان کی معافی قبول نہیں کی، انھوں نے اپنے ملازم اور تالپور خاندان کے باورچی لاشاری کے مطمئن ہونے سے معافی کو مشروط قرار دیا۔
شاہزیب کی والدہ نے اپنے بیٹے کو فوری طور پر وہاں سے روانہ ہونے کے لیے کہا، لیکن شاہ رخ جتوئی مقتول کو اسلحے کے زور پر دھمکاتے رہے، اور دیگر 4 ملزمان بھی موقع پر موجود تھے، شاہ زیب کو ان کی رہائش گاہ خیابانِ بحریہ میں قتل کیا گیا۔
یہ رپورٹ 18 اگست 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی