فاٹا کی مسیحی برادری: 'محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ہم اقلیت ہیں'
وہ لوگ جنہوں نے کبھی بھی جنوبی وزیرستان ایجنسی میں قدم نہیں رکھا، بلکہ صرف ذرائع ابلاغ پر انحصار کیا ہو اور وہ بھی سینکڑوں ہزاروں میل دور بیٹھ کر، زمینی حقائق سے پرے ائیرکنڈیشنڈ کمروں میں تیار کردہ خبروں اور تجزیوں سے ہی اس علاقے سے واقفیت حاصل کی ہو، ان کے ذہن میں اس علاقے کی عجیب تصویر بن چکی ہے۔
یہ عام بات ہے کہ وزیرستان کا نام سنتے ہی ذہن میں بندوق، بم دھماکے، قتل و غارت، اغواء، تشدد، طالبان، عسکری کارروائیاں آتی ہیں, گویا اس علاقے میں ڈھنگ کا کوئی کام ہے ہی نہیں، اور نہ ہی یہاں مہذب انسان بستے ہیں۔
لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔
بد قسمتی سے قبائل کا بالعموم اور وزیرستان اور اس کے رہنے والوں کا بالخصوص ایک عجیب حلیہ بنا دیا گیا ہے۔ اس میں میڈیا کا انتہائی اہم کردار رہا۔ قبائل کی پہچان صرف ایک جنگجو اور لڑاکا کی حیثیت تک محدود کر دی گئی، حالانکہ قبائلی عوام میں مہمان نوازی, نرم دلی، برداشت، وسعتِ قلبی، جیسی صفات عام ہیں لیکن 9/11 کے بعد مخصوص عالمی صورت حال کے یہاں پر اثرات نے یہاں کی پہچان ہی تبدیل کر دی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اس پٹی میں ایسا بہت کچھ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا، لیکن ہمارا آج بھی یہ دعویٰ ہے کہ اس میں قصور قبائلی عوام کا نہیں تھا، لیکن پھر بھی قبائلی عوام کو مشکلات سہنے پڑتی ہیں۔
بہرحال، یہ ایک لمبی بحث ہے۔ لیکن آئیں وہاں کی کچھ اچھی باتیں، اچھی روایات پر بھی بات کرتے ہیں تاکہ یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہو کہ وہاں سب کچھ بُرا نہیں بلکہ آج بھی مثالی معاشروں کی طرح کچھ مثالی روایات برقرار ہیں۔ یہ الگ بات ہیں کہ اچھی باتیں ہماری نظروں سے اوجھل ہیں جس میں شاید اہل قلم و اہلِ کیمرا کا قصور ہو۔
جنوبی وزیرستان ایجنسی وانا کا معاشرہ اور یہاں کے قبائل اگرچے دوسرے قبائل کی طرح اپنی جنگجویانہ فطرت کی وجہ سے مشہور ہیں لیکن آپ کو یہ پڑھ کر شائد حیرانی ہوگی کہ جنوبی وزیرستان کے ہیڈ کوارٹر وانا میں پچھلی کئی دہائیوں سے ایک خاص تعداد میں مسیحی برادری بھی رہائش پذیر ہے۔
پولیٹیکل انتظامیہ کی کچہری کے ساتھ ایف سی کیمپ وانا میں مسیحی برادری کا ایک خوبصورت چرچ بھی ہے جس میں یہ لوگ باقاعدہ اپنی عبادت کرتے ہیں۔ یہ چرچ 2000ء میں تعمیر کیا گیا تھا، اور اس کا سنگ بنیاد اُس وقت اسکاؤٹس فورس کے کمانڈنٹ کرنل ابصار عالم منہاس صاحب نے رکھا تھا۔