پاکستان

فاٹا کی مسیحی برادری: 'محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ہم اقلیت ہیں'

وانا رستم بازار، جس میں تقریبا 12 ہزار دُکانیں اور چھوٹے بڑے بازار ہیں، میں مسیحی برادری اپنا کاروبار آزادی سے کرتی ہیں۔

وہ لوگ جنہوں نے کبھی بھی جنوبی وزیرستان ایجنسی میں قدم نہیں رکھا، بلکہ صرف ذرائع ابلاغ پر انحصار کیا ہو اور وہ بھی سینکڑوں ہزاروں میل دور بیٹھ کر، زمینی حقائق سے پرے ائیرکنڈیشنڈ کمروں میں تیار کردہ خبروں اور تجزیوں سے ہی اس علاقے سے واقفیت حاصل کی ہو، ان کے ذہن میں اس علاقے کی عجیب تصویر بن چکی ہے۔

یہ عام بات ہے کہ وزیرستان کا نام سنتے ہی ذہن میں بندوق، بم دھماکے، قتل و غارت، اغواء، تشدد، طالبان، عسکری کارروائیاں آتی ہیں, گویا اس علاقے میں ڈھنگ کا کوئی کام ہے ہی نہیں، اور نہ ہی یہاں مہذب انسان بستے ہیں۔

لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔

بد قسمتی سے قبائل کا بالعموم اور وزیرستان اور اس کے رہنے والوں کا بالخصوص ایک عجیب حلیہ بنا دیا گیا ہے۔ اس میں میڈیا کا انتہائی اہم کردار رہا۔ قبائل کی پہچان صرف ایک جنگجو اور لڑاکا کی حیثیت تک محدود کر دی گئی، حالانکہ قبائلی عوام میں مہمان نوازی, نرم دلی، برداشت، وسعتِ قلبی، جیسی صفات عام ہیں لیکن 9/11 کے بعد مخصوص عالمی صورت حال کے یہاں پر اثرات نے یہاں کی پہچان ہی تبدیل کر دی۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اس پٹی میں ایسا بہت کچھ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا، لیکن ہمارا آج بھی یہ دعویٰ ہے کہ اس میں قصور قبائلی عوام کا نہیں تھا، لیکن پھر بھی قبائلی عوام کو مشکلات سہنے پڑتی ہیں۔

بہرحال، یہ ایک لمبی بحث ہے۔ لیکن آئیں وہاں کی کچھ اچھی باتیں، اچھی روایات پر بھی بات کرتے ہیں تاکہ یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہو کہ وہاں سب کچھ بُرا نہیں بلکہ آج بھی مثالی معاشروں کی طرح کچھ مثالی روایات برقرار ہیں۔ یہ الگ بات ہیں کہ اچھی باتیں ہماری نظروں سے اوجھل ہیں جس میں شاید اہل قلم و اہلِ کیمرا کا قصور ہو۔

جنوبی وزیرستان ایجنسی وانا کا معاشرہ اور یہاں کے قبائل اگرچے دوسرے قبائل کی طرح اپنی جنگجویانہ فطرت کی وجہ سے مشہور ہیں لیکن آپ کو یہ پڑھ کر شائد حیرانی ہوگی کہ جنوبی وزیرستان کے ہیڈ کوارٹر وانا میں پچھلی کئی دہائیوں سے ایک خاص تعداد میں مسیحی برادری بھی رہائش پذیر ہے۔

پولیٹیکل انتظامیہ کی کچہری کے ساتھ ایف سی کیمپ وانا میں مسیحی برادری کا ایک خوبصورت چرچ بھی ہے جس میں یہ لوگ باقاعدہ اپنی عبادت کرتے ہیں۔ یہ چرچ 2000ء میں تعمیر کیا گیا تھا، اور اس کا سنگ بنیاد اُس وقت اسکاؤٹس فورس کے کمانڈنٹ کرنل ابصار عالم منہاس صاحب نے رکھا تھا۔

مسیحی برادری کا چرچ ایف سی کیمپ وانا میں قائم ہے۔ فوٹو انور شاکر وزیر۔

چرچ چھوٹا ہے مگر اس کا طرزِ تعمیر آس پاس موجود دیگر عمارتوں سے اسے ممتاز کرتا ہے۔ فوٹو انور شاکر وزیر۔

اس چرچ کے لیے باقاعدہ پادری بھی مقرر ہیں جن کا نام ذیشان عالم ہے۔ اس سے پہلے موصوف کے والد نذیر عالم صاحب پادری تھے۔ ذیشان عالم نے مذہبی ایجوکیشن تھیولوجیکل اسکول کراچی سے حاصل کی اور ساتھ میں ایم بی اے بھی کر رکھا ہے۔

وانا رستم بازار جو ایک بڑا تجارتی مرکز ہے جس میں تقریبا 12 ہزار دُکانیں اور چھوٹے بڑے بازار ہیں، میں مسیحی برادری اپنا کاروبار آزادی سے کرتی ہیں۔

یہ میری اپنی رائے نہیں بلکہ اس چرچ کے پادری ذیشان عالم کہتے ہیں، ’ہم یہاں کے وزیر قبائل کے شکر گزار ہیں کہ جس محبت اور اخلاق سے یہ ہمارے ساتھ پیش آتے ہیں، ہمیں یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ہم یہاں اقلیت میں ہیں۔‘

ذیشان کا مزید کہنا ہے کہ اچھے حالات تو اچھے تھے ہی لیکن جب سے یہاں عمومی حالات خراب ہوگئے، تب بھی ہمیں کسی نے اُف تک نہیں کہا۔ مقامی لوگ ہم سے بڑے پیار سے ملتے ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ یہاں مسیحی برادری لگ بھگ 400 افراد پر مشتمل ہے۔

اگر کسی غیر ملکی کو یہ بتایا جائے کہ وزیرستان (جس کا نام سن کر ہی لوگ ڈر جاتے ہیں) میں 400 مسیحی رہتے ہیں تو اگلا سوال یہی ہوگا کہ کیا انہیں خوف محسوس نہیں ہوتا؟ کیا وہ خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں؟

اس سوال کے جواب میں ایک اور صاحب ملک مشتاق مسیح جو مقامی پولیٹیکل انتظامیہ کی طرف سے مسیحی برادری کے ڈومیسائل سرٹیفیکیٹس پر دستخط کے مجاز ہیں، نے بتایا کہ ان کی رستم بازار وانا میں ویلڈنگ شاپ بھی ہے جسے وہ کافی عرصے سے چلا رہے ہیں۔ آس پاس تمام دکانیں مسلمانوں کی ہیں، اور وہ بھی قبائلی مسلمانوں کی، جنہیں پوری دنیا کی جانب سے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، مگر ان کی برادری کے اکثر لوگ رات کے وقت بھی وانا کے اس بازار میں کام کرتے ہیں، اور بلا خوف و خطر اپنی زندگی گزارتے ہیں۔

ملک مشتاق مسیح نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ "میری پیدائش ہی وانا میں ہوئی ہے اور اب میری عمر چالیس سال ہے۔ اب یہاں ہم خود کو الگ تھلگ یا احساسِ کمتری کا شکار ہرگز محسوس نہیں کرتے۔"

ملک مشتاق مسیح نے مقامی قبائل کے لیے اچھے الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کے قبائل نے مذہبی اور نسلی رواداری کی ایک عجیب مثال قائم کی ہے جس کی مثالیں بہت ہی کم ملتی ہیں۔

ان کے مطابق ان کی برادری کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے اور یہاں کے لوگ چرچ کا بہت ہی احترام کرتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں کبھی کسی کی جانب سے تنقید یا غلط رویے کا سامنا کرنا پڑا ہے، تو ان کا جواب نفی میں تھا۔

"کبھی کسی نے اشارتاً بھی غلط بات نہیں کی، بلکہ قبائلی عمائدین کبھی کبھار آتے ہیں چرچ میں اور ہم سے ملتے بھی ہیں۔ اور اس سے زیادہ محبت اور رواداری کا کیا ثبوت ہو سکتا ہے؟"

ایک سوال کے جواب پر پادری ذیشان عالم اور ملک مشتاق مسیح دونوں نے کہا کہ مقامی پولیٹیکل انتظامیہ ہمارے مسائل میں دلچسپی نہیں لے رہی. تمام سرکاری ملازمتوں میں 5 فیصد کوٹہ ہمارا آئینی حق ہے لیکن تاحال ہم اس حق سے محروم ہیں۔

ایک اور مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ملک مشتاق مسیح نے کہا کہ ہمیں جو ڈومیسائل دیے جاتے ہیں وہ درجہ (ب) یا بی کیٹیگری کے ہوتے ہیں جس میں ہمیں قبائل جیسی تمام مراعات نہیں دئ جاتیں، حالانکہ تقریباً 80 سال سے ہماری برادری یہاں رہائش پذیر ہے۔

چرچ کے ساتھ پادری کا کمرہ بھی واقع ہے۔ فوٹو انور شاکر وزیر۔

پاسٹر ذیشان عالم دعائیہ تقریب کے دوران خطاب کر رہے ہیں۔ فوٹو انور شاکر وزیر۔

دعائیہ تقریب کے دوران بچے دعا میں مصروف ہیں۔ فوٹو انور شاکر وزیر۔

مسیحی برادری سے ان کی برادری اور ان کے مسائل کے بارے میں بات چیت کرنے کے بعد میں نے جامعہ دارالعلوم وزیرستان وانا کے مہتمم مولانا ڈاکٹر تاج محمد سے بات چیت کی۔

میرے سوال، کہ یہاں مسیحی برادری کا وقت کیسے گزرتا ہے، کے جواب میں مولانا صاحب کہنے لگے 'مسیحی برادری کے لوگ اپنی نوکریوں، کاروبار اور تعلیم کے سلسلے میں مکمل طور پر آزادانہ نقل و حرکت کرتے ہیں، اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں کے عوام میں رائے عامہ کے برعکس مذہبی رواداری اور حسنِ سلوک بدرجہ اتم موجود ہے۔"

اُنہوں نے کہا کہ وانا میں مسیحی برادری کا اپنا ایک بڑا چرچ ہے اور یہاں یہ اپنی مذہبی رسومات آزادی سے ادا کرتے ہیں۔ اسلام بھی ہمیں اسی طرح کی رواداری کا درس دیتا ہے اور پشتون روایات بھی اسی کا تقاضا کرتی ہیں۔ یہ لوگ وانا بازار، ہسپتالوں، اور تعلیمی اداروں میں ازادانہ جاتے ہیں۔

"ملک کے کسی بھی حصے میں شاید عوامی سطح پر اتنا اچھا سلوک مسیحی برادری کے ساتھ کیا جا رہا ہو جتنا کہ وانا کے قبائل ان کے ساتھ کرتے ہیں۔"

ایک قبائلی دلبر محمد نے بتایا کہ وہ وانا بازار سے شام کے وقت گھروں کو جاتے ہیں لیکن مسیحی برادری کے اکثر لوگ یہاں نائٹ شفٹ میں کام بھی کرتے ہیں، کیونکہ ان میں زیادہ تر لوگ درزی ہیں، جو رات میں بھی کام کرتے ہیں۔ دلبر کے مطابق آج تک کسی نے مذہب کی بناء پر انہیں تنقید و تذلیل کا نشانہ نہیں بنایا ہے۔

اب ہم ذرا ملک کے دوسرے حصوں سے وزیرستان کا موازنہ کریں۔ کیا یہ درست نہیں کہ ملک کے دیگر حصوں میں اقلیتوں کو جیس طرح کے حقوق اور آزادی حاصل ہے، ویسی ہی آزادی وزیرستان میں بھی ہے؟

کیا یہ درست نہیں کہ وزیرستان کے بارے میں ہمارے قائم کردہ تصورات ہمارے اپنے تجربات پر مبنی ہونے کے بجائے چند حلقوں کی جانب سے پھیلائی گئی باتوں پر مبنی ہیں؟

اگر ہم واقعی عسکریت پسندی اور انتہاپسندی کو شکست دینا چاہتے ہیں تو ملک میں مقیم ہر برادری کو 'اپنا' تصور کرنا ہوگا، جس طرح وانا میں مسلمان قبائل اور مسیحی برادری آپس میں ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ یہی انسان دوست رویے وہ ہیں جو نفرت پسند عناصر کو ہماری صفوں میں اپنی جگہ بنانے سے روک سکتے ہیں۔