پاکستان

حکومتی اتحادی بھی 'افغان مہاجرین واپسی' کے مخالف

اپوزیشن جماعتوں کے بعد حکومتی اتحاد میں شامل مولانا فضل الرحمٰن نے بھی افغان مہاجرین کی وطن واپسی کی مخالفت کردی۔

اسلام آباد: اپوزیشن جماعتوں کے بعد جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی افغان مہاجرین کی وطن واپسی کی مخالفت کردی۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ افغان مہاجرین کو زبردستی وطن واپس بھیجنا درست اقدام نہیں ہوگا، 30 سال کی مہمان نوازی کے بعد افغانیوں کو جنگ میں واپس بھیجنا غلط ہے۔

انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ افغان مہاجرین کو آگ اور خون میں واپس نہیں دھکیلا جاسکتا، زبردستی واپس بھیجنے سے افغان مہاجرین میں پاکستان مخالف جذبات پیدا ہوں گے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ افغانیوں کو دشمن بنانے کی بجائے دوست بنایا جائے۔

مزید پڑھیں: اے این پی نے افغان مہاجرین کی واپسی کی مخالفت کردی

جموں و کشمیر پر جے یو آئی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ہندوستان کشمیر پر اپنے مؤقف میں تنہا ہے، دنیا کشمیر پر پاکستان کے موقف کو سمجھتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے، جس کا فیصلہ کشمیری عوام نے خود کرنا ہے۔

انھوں نے عالمی برادری سے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا اور بتایا کہ جموں و کشمیر پر ہندوستان کسی فورم پر پاکستان کے سامنے بیٹھنے کی جرات نہیں کر رہا۔

خیال رہے کہ 10 اگست کو افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے حوالے سے حکومتی پالیسی کی مخالفت کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے صوبائی جنرل سیکریٹری سردار حسین بابک نے کہا تھا کہ صوبائی حکومت صوبے میں امن و امان کے قیام میں ناکام رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا افغانیوں کا ہے،محمود خان اچکزئی

خیبر پختونخوا اسمبلی میں اے این پی کے پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک نے الزام لگایا تھا کہ آپریشن کے نام پر افغانیوں کو ملک کے مختلف علاقوں میں ہراساں کیا جارہا ہے۔

اس سے قبل پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے خیبر پختونخوا کو ’افغانیوں‘ کا قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کسی کو، افغان مہاجرین کو ان کی ’اپنی زمین‘ میں ہراساں کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

انہوں نے کہا تھا کہ اگر افغانیوں کو پاکستان کے دیگر حصوں میں بھی ہراساں کیا جارہا ہو، تو انہیں بھی صوبہ خیبر پختونخوا آجانا چاہیے، جہاں کوئی ان سے مہاجرین کارڈز کے حوالے سے نہیں پوچھ سکتا، کیونکہ وہ صوبہ ان کا بھی ہے۔

واضح رہے کہ ایک ماہ قبل 30 جون کو وزیراعظم نواز شریف نے افغان مہاجرین کے پاکستان میں قیام کی مدت میں 6 ماہ کی توسیع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

یاد رہے کہ پاکستانی حکومت نے گذشتہ سال دسمبر میں افغان مہاجرین کی رجسٹریشن میں 6 ماہ کی توسیع کی تھی جو 30 جون کو اختتام پذیر ہوگئی تھی۔

مزید پڑھیں: افغان مہاجرین کا 'قیام میں توسیع' کا مطالبہ

پاکستان کے مختلف شہروں میں تقریباً 15 لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین آباد ہیں اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں غیر رجسٹرڈ مہاجرین بھی مقیم ہیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ گذشتہ ماہ ریاستی اور سرحدی امور (سیفران) کے وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبد القادر بلوچ نے کہا تھا کہ افغان مہاجرین کو 31 دسمبر 2016 تک ہر حال میں پاکستان سے جانا ہوگا اور ان کی مدت قیام میں مزید توسیع نہیں کی جائے گی۔