سفرنامہ ترکی: رومی کے شہر میں
کانفرنس کے دوسرے روز ہماری منزل، یورپی یونین کا انقرہ میں واقع دفتر تھا۔ اس مختصر سفر کے دوران مجھے منگولیا سے آئے مندوب سے گفتگو کا موقع ملا۔ منگولیا کے متعلق میری معلومات چنگیز خان تک محدود تھیں۔
گانزورگ نامی منگولین مندوب نے بتایا کہ ان کا ملک کمیونزم کے ’چنگل‘ سے نکل چکا ہے اور گزشتہ کچھ سالوں میں وہاں حیران کن معاشی ترقی دیکھنے کو ملی ہے۔
گانزورگ برطانیہ کی ایک اعلیٰ یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کے طالب علم تھے اور انہوں نے بتایا کہ جغرافیائی طور پر دو عالمی قوتوں (چین اور روس) کے مابین موجود ہونے کی وجہ سے ان کے ملک کو دونوں ہمسایوں کے مفادات کا خیال رکھنا پڑتا ہے، جو جان جوکھم کا کام ہے۔
یہ بھی پتہ چلا کہ الان باتور (Ulaan Bator منگولیا کا دارالحکومت) ہوائی اڈے سے نکلیں تو سب سے پہلے چنگیز خان کے ایک دیو قامت مجسمے پر نظر پڑتی ہے اور ان کے کرنسی نوٹوں پر اب تک اس کی شبیہہ موجود ہے۔
منزل مقصود پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ یورپی یونین کا دفتر ایک بلند عمارت کی آخری منزل پر واقع ہے۔ سو کے قریب لوگ متعدد دفعہ لفٹ میں ٹھنس کر اوپر پہنچے۔
وہاں ہمارا استقبال سیاسی ڈویژن کے سربراہ نے کیا۔ وہاں ایک دیوار پر وائی فائی کا پاس ورڈ درج تھا لیکن بیک وقت ایک مخصوص تعداد سے زیادہ افراد اسے استعمال نہیں کر سکتے تھے۔
ایک صاحب نے ہمیں BRICS ممالک کے متعلق آگاہ کیا۔ ایک سیشن میں قبرص کے ترکی اور یونانی حصے کے سفیر موجود تھے لیکن گرما گرمی کی نوبت نہ آئی (قبرص/ Cyprus کے جزیرے پر ترکی اور یونان کے درمیان کشیدگی کئی دہائیاں جاری رہی لیکن اب کافی حد تک امن ہے)۔
دن کا آخری سیشن ملتوی ہونے پر مندوبین کو ’روایتی ترک کھانے‘ کا لالچ دے کر ایک ریسٹورنٹ پہنچایا گیا۔ البتہ جب Menu سامنے آیا تو معلوم ہوا کہ ’یہ وہ سحر تو نہیں‘ اور ہمیں حسب معمول بد مزہ کھانے پر اکتفا کرنا پڑا۔
اس عشائیے کے دوران دو آذر بائیجانی خواتین اور دو البانوی حضرات نے (نامعلوم وجوہات کی بنا پر) ہمارے ہاتھ پر بیعت کرنے کا اعلان کیا۔ ان نیک دل حضرات اور بیبیوں کو ہم میں کوئی ایسی خاص بات نظر آئی جو آج تک ہمیں معلوم نہیں ہو سکی۔
انقرہ شہر کے متعلق سنا تھا کہ اسلام آباد کی طرح بے رونق سی جگہ ہے جہاں سوائے سفیروں اور طلبہ کے کوئی اپنی مرضی سے رہنے کو تیار نہیں ہوتا۔
تجربے نے یہ ثابت کیا کہ لوگ خوامخواہ اسلام آباد کو بدنام کرتے ہیں، انقرہ پہنچ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ’بے رونقی‘ کیا ہوتی ہے۔ اسلام آباد والوں کو تو پھر مری ومونال کی سہولیات میسر ہیں، انقرہ میں ایسا کوئی انتظام نہیں۔