لیفٹیننٹ جنرل زبیر حیات
تقرری کا عمل
آرمی چیف اور چیف آف جنرل اسٹاف کمیٹی کے عہدوں پر تقرری کا عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب وزیر اعظم وزارت دفاع کے توسط سے جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) سے چھ سر فہرست لیفٹیننٹ جنرلز کی تفصیلات پر مبنی دستاویز طلب کرتا ہے۔
اس دستاویز میں امیدواروں کی اہلیت کے حوالے سے نکات درج ہوتے ہیں لیکن حکام کا کہنا ہے کہ اس مرحلے پر سبکدوش ہونے والے آرمی چیف کی جانب سے کوئی باضابطہ سفارش نہیں ہوتی۔
قانون کے تحت اگر کوئی شخص آرمی چیف کے عہدے کیلئے سفارش کرسکتا ہے تو وہ ہے وزیر دفاع تاہم موجودہ وزیر دفاع خواجہ آصف فوج کے معاملات سے دور نظر آتے ہیں اور توقع یہی ہے کہ وہ خود کو نئے آرمی چیف کی تقرری کے عمل سے بھی علیحدہ رکھیں گے۔
اس کے بعد وزیر اعظم متوقع امیدواروں کے حوالے سے آرمی چیف سے ون آن ون مشاورت کرتا ہے۔
اس حوالے سے جب ایک ریٹائرڈ جنرل سے پوچھا گیا کہ جنرل راحیل شریف کی ترجیح کیا ہوگی تو انہوں نے کہا کہ 'جنرل راحیل شریف اپنی سفارشات دے کر وزیر اعظم کو سنیارٹی لسٹ تبدیل کرنے کا موقع فراہم نہیں کرنا چاہیں گے۔'
وزیر اعظم کے قریب سمجھے جانے والے ایک سیاستدان کا یہ موقف ہے کہ آرمی چیف کے لیے موزوں امیدوار کا انتخاب کرتے ہوئے نواز شریف ان فوجی افسران کے ساتھ اپنے ورکنگ ریلیشن کا جائزہ ضرور لیں گے جن سے امور کی انجام دہی کے دوران ان کی ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ تقرری سے قبل آرمی چیف کے عہدے کے امیدواروں کا سیاسی اتار چڑھاؤ کے دوران رد عمل اور خاص طور پر 2014 کے دھرنے کے دوران ان کا موقف کو بھی پیش نظر رکھا جائے گا۔
اس بات کو بھی مد نظر رکھا جائے گا کہ جب دھرنے کے دوران جنرل راحیل شریف پر 'کچھ کرنے' کیلئے دباؤ بڑھا تو بعض کور کمانڈرز نے انہیں کچھ نہ کرنے کا مشورہ دیا اور کہا جارہا ہے کہ اس حوالے سے نواز شریف انٹیلی جنس رپورٹس پر بھروسہ کریں گے۔
آرمی چیف کی تعیناتی کے عمل کے دوران امیدواروں کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے اور خاص طور پر ہندوستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے خیالات کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔
آگلے آرمی چیف کو قبائلی علاقوں میں جاری آپریشنز سے فوجی انخلاء کی اہم ذمہ داری بھی نبھانی پڑسکتی ہے کیوں کہ اس طویل ترین انسداد دہشتگردی آپریشن کے دوران آرمی کے کئی انفینٹری یونٹس ایسے بھی ہیں جو ان علاقوں میں تین بار تعینات ہوچکے ہیں۔
فوجی افسران کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے فوجی دستوں کی پیشہ وارانہ صلاحیتیں اور چستی متاثر ہورہی ہے۔
امیدوار
لیفٹننٹ جنرل زبیر حیات کا تعلق آرٹلری سے ہے اور وہ حاضر سروس چیف آف جنرل اسٹاف ہیں، تھری اسٹار جنرل کی حیثیت سے ماضی میں وہ اسٹریٹجک پلانز ڈویژن (ایس پی ڈی) کے ڈائریکٹر جنرل رہ چکے ہیں جو کہ این سی اے کا سیکریٹریٹ ہے۔
اس کے علاوہ وہ بہاولپور کے کور کمانڈر بھی رہ چکے ہیں لہٰذا وہ چیئرمین جوانٹ چیفس آف اسٹاف کے عہدے کیلئے آئیڈیل انتخاب ہیں جس کے پاس جوہری فورسز اور اثاثوں کا مکمل اختیار ہوتا ہے۔
چیف آف جنرل اسٹاف اور ڈی جی ایس پی ڈی کے عہدے پر رہنے کی وجہ سے انہیں وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ساتھ قریب سے کام کرنے کا موقع ملا ہے۔
جب وہ میجر جنرل کے عہدے پر تھے تو جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی) سیالکوٹ کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے اور بعد میں اسٹاف ڈیوٹیز (ای ڈی) ڈائریکٹوریٹ کی سربراہی کی جس کے اہلکاروں کے بارے میں آرمی میں عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ 'یہ کاغذ کے شیر ہیں'۔
ڈائریکٹوریٹ میں تعیناتی اور آرمی چیف کے پرنسپل اسٹاف آفیسر کے عہدے پر پوسٹنگ کی وجہ سے وہ جنرل کیانی کے قریب آگئے تھے اور انہیں جنرل کیانی کا شاگرد سمجھا جاتا تھا۔
بہر حال ان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ انہوں نے کبھی جنگ زدہ علاقے میں خدمات انجام نہیں دیں۔
لیفٹیننٹ جنرل زبیر حیات کے ساتھ کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ کام کرنے کے جنونی اور ان کا حافظہ بھی بہت تیز ہے۔
جنرل زبیر سیکنڈ جنریشن آفیسر ہیں اور ان کے والد بھی پاک فوج سے میجر جنرل کے عہدے پر ریٹائرہوئے تھے جبکہ ان کے دو بھائی بھی جنرل ہیں ان میں سے ایک پاکستان آرڈیننس فیکٹریز واہ کے چیئرمین لیفٹننٹ جنرل عمر حیات اور دوسرے انٹر سروس انٹیلی جنس کے ڈی جی اینالسس میجر جنرل احمد محمود حیات ہیں۔
آرمی چیف کے عہدے کے لیے لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم احمد بھی اہمیت کے حامل ہے وہ اس وقت کور کمانڈر ملتان ہیں اور ماضی میں چیف آف جنرل اسٹاف رہ چکے ہیں۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے عہدہ سنبھالتے ہی جو کام کیے تھے جنرل اشفاق کی بطور چیف آف جنرل اسٹاف تعیناتی بھی ان میں سے ایک تھا اور کئی لوگ جنرل راحیل شریف کی کامیابی کا کریڈٹ جنرل اشفاق کو ہی دیتے ہیں۔
جنرل راحیل شریف کی مقبولیت کی وجہ شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کی کامیابی ہے لیکن بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ آپریشن ضرب عضب کا خاکہ بھی جنرل اشفاق نے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کی حیثیت سے تیار کیا تھا۔
جنرل اشفاق نے بطور میجر جنرل سوات آپریشن میں بھی حصہ لے چکے ہیں اور وہ وزیرستان میں بریگیڈیئر تعینات رہ چکے ہیں۔
آپریشنز ڈائریکٹوریٹ کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب جنرل اشفاق لیفٹیننٹ کرنل تھے اور اس میں ان کی شمولیت کی وجہ سے کئی آرمی افسران اس بات پر متفق ہیں کہ آپریشنز کو ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔
وہ اس وقت میکانی کور کے سربراہ ہیں اور یہ عہدہ انفنٹری کے کسی بھی آرمی افسر کے لئے اعزاز سے کم نہیں ہوتا۔
مزید برآں ان کا تعلق آزاد کشمیر رجمنٹ سے ہے لہذا اگر وہ آرمی چیف بنتے ہیں تو آرمی میں موجود آزاد کمشیر سے تعلق رکھنے والے فوجیوں کیلئے یہ بڑا اعزاز ہوگا۔
تاہم ناقدین کہتے ہیں کہ جنرل اشفاق کا انداز بہت ہی تحکمانہ اور منہ پھٹ ہے، ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ بطور چیف آف جنرل اسٹاف جنرل اشفاق کو اکثر وزیراعظم ہاؤس جانا پڑتا تھا اور ان کا یہ رویہ اکثر اوقات وزیر اعظم کو ناگوار بھی گزرتا تھا۔
لیکن جنرل اشفاق انتہائی غیر سیاسی افسر ہیں اور حکومت کے لئے انہیں نظر انداز کرنا آسان نہیں ہوگا۔
لیفٹننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے بھی سینیارٹی لسٹ میں موجود ہیں اور وہ اس وقت بہاولپور کے کور کمانڈر ہیں، ماضی میں وہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کے صدر رہ چکے ہیں۔
وہ سوات آپریشن کے دوران جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی) رہ چکے ہیں ، 2011 میں سوات کے پہاڑی علاقوں میں ان کے ہیلی کاپٹر پر جنگجوؤں نے اسنائپر سے فائرنگ کی تھی اور اس حملے میں وہ زخمی بھی ہوگئے تھے۔
اگلے چار برس وہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں رہے پہلے بطور کمانڈنٹ اور پھر چیف انسٹرکٹر اور پھر بطور صدر خدمات انجام دیں، ان کا تعلق انفنٹری کے سندھ رجمنٹ سے ہے۔
لیفٹننٹ جنرل رمدے کے سابق سینئر افسران کہتے ہیں کہ وہ انتہائی باصلاحیت اور دانش مند افسر ہیں۔
جنرل رمدے کے خاندان کا سیاسی پس منظر ہونے کی وجہ سے بعض سیاسی تجزیہ کار انہیں پاکستان مسلم لیگ ن کا ترجیحی انتخاب قرار دے رہے ہیں تاہم عوامی حلقوں میں ان کے خاندان کی سیاسی وابستگیوں کے حوالے سے ہونے والی بحث ان کی امکانات کو کم کرسکتے ہیں۔
مبینہ طور پر ان کا تعلق سپریم کورٹ کے سابق جج ریٹائرڈ جسٹس خلیل الرحمان رمدے سے بھی ہے اور 2009 میں جی ایچ کیو میں ہونے والے حملے میں ان کے رشتہ دار بریگیڈیئر انوار الحق رمدے بھی مارے گئے تھے۔
اس فہرست میں شامل لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجودہ کو اس دوڑ میں 'چھپے رستم' کی حیثیت حاصل ہے، اور ان پر قریبی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔
وہ اس وقت جی ایچ کیو میں انسپکٹرجنرل آف ٹریننگ اینڈ ایویلوئیشن ہیں اور یہ وہی عہدہ ہے جو آرمی چیف بننے سے قبل جنرل راحیل شریف کے پاس تھا۔
جنرل قمر آرمی کی سب سے بڑی 10 ویں کور کو کمانڈ کرچکے ہیں جو کنٹرول لائن کے علاقے کی ذمہ داری سنبھالتی ہے۔
لیفٹننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں میں معاملات کو سنبھالنے کا وسیع تجربہ ہے، بطور میجر جنرل انہوں نے فورس کمانڈ ناردرن ایریاز کی سربراہی کی۔
انہوں نے 10 ویں کور میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر بھی بطور جی ایس او بھی خدمات انجام دیے ہیں۔
کشمیر اور شمالی علاقوں میں تعیناتی کا وسیع تجربہ رکھنے کے باوجود کہا جاتا ہے کہ جنرل قمر دہشت گردی کو پاکستان کے لیے ہندوستان سے بھی بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔
لیفٹننٹ جنرل قمر کانگو میں اقوام متحدہ کے امن مشن میں انڈین آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ کے ساتھ بطور بریگیڈ کمانڈر کام کرچکے ہیں جو وہاں ڈویژن کمانڈر تھے۔
وہ ماضی میں انفنٹری اسکول کوئٹہ میں کمانڈنٹ بھی رہ چکے ہیں اور ان کے ساتھی کہتے ہیں کہ جنرل قمر کو توجہ حاصل کرنے کا شوق نہیں اور وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔
ان کے ماتحت کام کرنے والے ایک افسر کا کہنا ہے کہ جنرل قمر انتہائی پیشہ ور افسر ہیں،ساتھ ہی بہت نرم دل بھی ہیں اور وہ غیر سیاسی اور انتہائی غیر جانبدار سمجھے جاتے ہیں۔
ان کا تعلق انفرنٹری کے بلوچ رجمنٹ سے ہے جہاں سے ماضی میں تین آرمی چیف آئے ہیں اور ان میں جنرل یحیٰ خان، جنرل اسلم بیگ اور جنرل کیانی شامل ہیں۔
یہ رپورٹ 14 اگست 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی