'چوہدری نثار دہشت گردوں کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں'
اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما اور وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر برائے محنت و افرادی قوت سعید غنی نے کہا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار دہشت گردوں کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور اُن کے دل میں ان کے لیے ہمدردی پائی جاتی ہے۔
ڈان نیوز کے پروگرام 'ان فوکس' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو بجائے واقعہ کی مذمت کرنے کے وہ پریس کانفرس میں سیاسی بیانات دینا شروع کردیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بات پورے ملک کو معلوم ہے کہ چوہدری نثار خود وزیراعظم نواز شریف کی بات بھی نہیں سنتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ کچھ عرصے قبل ان سے ناراض بھی ہوگئے تھے۔
پی پی رہنما کا کہنا تھا کہ صرف نواز شریف ہی نہیں، بلکہ وفاقی کابینہ کے کئی اور ایسے لوگ ہیں جن کے ساتھ چوہدری نثار ہاتھ ملانا بھی پسند نہیں کرتے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ چوہدری نثار کو پیپلز پارٹی کے سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف ایک واضح مؤقف رکھتے ہیں۔
انھوں نے چوہدری نثار کی 2012 کی ایک پریس کانفرنس کا بھی حوالہ دیا کہ جس میں انھوں نے فوج کی جانب سے شمالی وزیرستان میں آپریشن کے فیصلے کی مخالفت کی تھی۔
نیشنل ایکشن پلان پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بیان سے متعلق پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں فوج کو اس طرح کا بیان نہیں دینا چاہیے اور اگر اس پر عمل درآمد میں کوئی مسائل ہیں بھی تو انہیں حکومت کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔
تاہم، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آرمی چیف نے نینشل ایکشن پلان پر جو بات کی ہے وہ بلکل وہی ہے جو کہ اپوزیشن کا حکومت سے مطالبہ ہے۔
سعید غنی کا کہنا تھا کہ ہمارا بھی یہی مؤقف ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر جس طرح سے عمل درآمد ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہو رہا۔
واضح رہے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ نینشل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں تاخیر آپریشن ’ضرب عضب‘ کی کامیابیوں پر اثرانداز ہورہی ہے، جبکہ بعض حلقوں کے بیانات اور تجزیے قومی کاز کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: بعض حلقوں کے بیانات قومی کاز کو نقصان پہنچا رہے ہیں،آرمی چیف
ان کا کہنا تھا کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد جس طرح سے تمام سیاسی جماعتوں کی اتفاقِ رائے سے قومی ایکشن پلان بنایا گیا تو اسی طرح اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد کے لیے تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر چلے۔
پی پی رہنما کا کہنا تھا کہ اگر خود وزیر داخلہ اپوزیشن کے ساتھ الفاظوں کی جنگ میں لگے رہیں گے تو ایسا ممکن نہیں ہوسکے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا اس معاملے میں ایک اہم کردار ہونا چاہیے، لیکن وہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کررہی۔
کوئٹہ خود کش بم دھماکے کے بعد قومی اسمبلی میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہی محمود خان اچکزئی کے بیان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے صوبائی مشیر کا کہنا تھا کہ اگر سندھ میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو سب مل کر ہمیں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، لیکن اگر کسی اور جگہ پر ایسا کچھ ہو تو اس پر بھی ادارے سے پوچھنے کا حق ہونا چاہیے۔
سعید غنی کا مزید کہنا تھا کہ سیکیورٹی اداروں اور انٹیلی جنس کی کارکردی پر سوال اٹھانے کا حق صرف ارکانِ پارلیمنٹ نہیں بلکہ پوری قوم کو حاصل ہے۔
خیال رہے کہ اپنی پریس کانفرنس کے دوران وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے پیپلز پارٹی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ’کچھ لوگ اسمبلی میں پوائنٹ اسکورنگ اور تماشا لگانا چاہتے تھے، اسمبلی میں صرف وزیر اعظم کو متاثر کرنے کے لیے ڈرامہ رچایا گیا، اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ حکومت کے بجائے میرے خلاف ہیں اور ایک ایسا ٹولہ ہے جو ہر چیز کا الزام مجھ پر ڈال دیتا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں: الزامات لگانے والوں کو مناظرے کا چیلنج
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن لیڈر کو سیکیورٹی اداروں کے حوالے سے میری بات ناگوار گزری، لیکن سیکیورٹی اداروں پر تنقید کا جواب دینا میری ذمہ داری ہے۔
نیشنل ایکشن پلان میں وزارت داخلہ سے متعلق 4 نکات تھے، جن میں سے وزارت نے اپنے حصے کا بیشتر کام کرلیا ہے، سیکیورٹی کے حوالے سے کسی صوبے کو کبھی تنقید کا نشانہ نہیں بنایا، لیکن صوبے انٹیلی جنس رپورٹ کی پرواہ نہیں کرتے۔
انہوں نے خود پر الزامات لگانے والوں کو مناظرے کا چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا کہ جسٹس ریٹائرڈ وجہیہ الدین اور جسٹس ریٹائرڈ طارق پر مشتمل کمیشن بنالیا جائے، جبکہ صحافیوں پر مشتمل جیوری بنائی جائے جو قوم کو سچ بتائے۔