ہرتیک روشن کی نئی فلم ناقدین کو کتنی پسند آئی؟
بولی وڈ کو لگتا ہے کہ تاریخی کہانیوں بنانے کا بہت شوق ہے اور ناقدین بھی اکثر اس جنون کو سراہتے ہیں۔
باجی راﺅ مستانی کو اس میں دکھائی جانے والی شان و شوکت پر ناقدین نے سراہا تو بمبئے ویلوٹ سے لے کر نیرجا کی بھی ستائش کی گئی۔
مگر کیا ہرتیک روشن کی نئی فلم ' موئن جو دڑو' متاثر کرسکے گی یا نہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو سب کے ذہنوں میں موجود ہے کیونکہ اس فلم میں تاریخی واقعات کو ناقص انداز سے بیان کرنے کا تنازع ریلیز سے قبل ہی سامنے آگیا تھا۔
موئن جو دڑو میں ہرتیک روشن نے ایک غریب کاشتکار شرمن کا کردار ادا کیا ہے جو موئن جو دڑو کے بڑے میں کامیابی کے حصول کے لیے پرعزم ہے، اور روایتی بولی وڈ فلموں کی طرح اپنی جدوجہد کے دوران وہ شہر کے اہم ترین شخص کی بیٹی (یہ کردار پوجا ہیج نے ادا کیا) کی محبت میں گرفتار ہوجاتا ہے اور پھر مشکلات سامنے آتی ہیں۔
تو جانیں اس فلم کے بارے میں انڈین ناقدین کا کیا کہنا ہے۔
انڈین ایکسپریس کے شوبھرا گپتا کاسٹیوم ڈیزائن میں خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں;
" زمین کی رنگت اور مکانات متوازن ہیں مگر ان کے رہنے والے پوشاکیں بنانے کے فن سے آگاہ لگتے ہیں، ہر ایک کو دیکھ کر لگتا ہے کہ انہیں غیر رسمی زمینی ساخت کے ملبوسات دیئے گئے جو کہ جدید فیشن کے حامل تھے۔ اور اگر آپ کو خیال آتا ہے کہ 2016 قبل مسیح میں ملبوسات کے ساتھ مختلف ایسیسریز نظر نہیں آئیں گی، تو ایسا بالکل نہیں، ولن گروپ کے سرباراہ نے سینگوں والا سرپوش پہنا ہوا ہے جبکہ انتہائی لمبا تاج جو کہ پروں جیسا لگتا ہے، سکے اور سیپیاں ہیروئین کے حصے میں آئے ہیں"۔
ہندوستان ٹائمز کی شویتا کوشل نے اسے لگان کا نشہ قرار دیا ہے جو کہ مکمل طور پر ہرتیک روشن اور ان کی صلاحیت پر مبنی ہے ;
" ہرتیک اپنے ایبس اور جنگجوانہ صلاحیتوں کو متعارف کراتے ہیں، یہ پورا سیکونس انتہائی غیرمنطقی تھا، ہرتیک کا ایک مگرمچھ کو مارنے کے لیے تخلیقی طریقوں کو اپنانا ایسا نہیں تھا جس میں ہم دلچسپی لیتے، ان کی لچک اور ڈانس کی صلاحیتیں ہی وہ چیزیں ہیں جو ہماری توجہ مرکوز کراتی ہیں"۔
دی ہندو کی نمرتا جوشی نے بھی اس کا لگان سے موازنہ کیا جس کی کہانی غیر دلچسپ اور طوالت بہت زیادہ تھی ;
" لگان اور سودیش دونوں میں ہیرو ایک قائدانہ شخصیت ہوتا ہے جو برادری کو ایک مقصد کے لیے اکھٹا کرتا ہے اور آگے بڑھنے کا راستہ دکھاتا ہے، ایک فلم میں ہیرو میچ جتواتا ہے اور دوسری میں بجلی پیدا کرتا ہے، اس نئی فلم میں ہرتیک ایک جابر حکمران کا تختہ الٹنے اور ایک دریا پر ایک پل تعمیر کرنے میں مدد دیتے ہیں، ہاں یہ اچھے آئیڈیاز تھے مگر ان کا انداز ایسا ہے جو دیکھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی بجائے ان کے صبر کا امتحان لیتے ہیں"۔
اسکرول کی نندنی رام ناتھ نے ڈائریکٹر آسوتوش گواریکر کی کوششوں کو سراہا ہے;
" اس دور کے زمانے حقائق کو درست انداز سے تو پیش نہیں کیا جاسکتا مگر اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ آسوتوش گواریکر برصغیر کی تاریخ کے ابتداءکے ایک اہم باب کو سامنے لے کر آئے ہیں، تاریخ کے اس سبق کو حال میں لاکر گواریکر نے ایک نظروں سے اوجھل اور بہت زیادہ مباحثے میں رہنے والے تاریخ کے دور کو پیش کیا ہے۔ موئن جو دڑو کو مثالی تو نہیں قرار دیا جاسکتا مگر یہ کوئی مضحکہ خیز نقل بھی نہیں"۔
دوسری جانب ٹائمز آف انڈیا کی سریجانہ مترا داس کا ماننا ہے کہ اس میں مزید کچھ شامل ہونا چاہئے تھا;
" موئن جو دڑو میں مزید بڑے لمھات شامل ہونے چاہئے تھے، ابھی یہ بن حر سے کم اور امر پالی سے زیادہ بہتر ہے، تاہم اس میں دکھائے جانے والا پیمانہ اور تصور دیکھنے میں دلچسپ ہیں، اور ہرتیک کے بارے میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ وہ انڈیا کے پہلے خدمت گار تھے"۔
یقیناً فلم کی اصل آزمائش تو عوام کے سامنے ہی ہوگی تو یہ بھی جان لیں کہ ٹوئٹر پر ان کا کیا کہنا تھا:
ایک خاتون نے کہا کہ موئن جو دڑو ستر کی دہائی کے بولی وڈ کے ناکام قبائلی رقص کے معمول سے متاثر لگتی ہے، جو کہ توہین آمیز، نفرت انگیز اور معیوب مناظر سے بھرپور ہے.
ایک صارف نے لکھا ' موئن جو دڑو کی طوالت تو ڈھائی گھنٹے تھی مگر اگلا شو پانچ گھنٹے بعد ہی شروع ہوسکا کیونکہ فلم کے ختم ہونے کے بعد اسے دیکھنے والے افراد دو گھنٹے بعد بیدار ہوئے"۔
ایک کا خیال تھا کہ بیشتر افراد موئن جو دڑو کی بجائے ممبئی میں کسی فیشن مرکز کے افتتاح پر جائیں گے اور وہ تاریخ کے مقابلے میں فیشن کو زیادہ پسند کریں گے۔