کھیل

اپنے ملک سے بہت دور دنیا کا بہترین باکسنگ کوچ

کیوباسے تعلق،امریکا میں مقیم، آذربائیجان کے کوچ پیٹرروک اوٹانو تاریخ کےکامیاب ترین امیچور باکسنگ ٹرینرز میں سے ایک ہیں۔

پیٹر روک اوٹانو کا نام شاید باکسنگ شائقین کیلئے زیادہ اہمیت کا حامل نہ ہو لیکن کیوبا سے تعلق رکھنے والا یہ شخص تاریخ کے کامیاب ترین امیچور باکسنگ ٹرینرز میں سے ایک ہے جس نے پانچ دہائیوں پر محیط اپنے کیریئر کا آغاز آبائی وطن سے کیا اور اب وہ امریکا سمیت لاتعداد ملکوں کی کوچنگ کرنے کے بعد آذربائیجان میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔

پیٹر نے کہا کہ انہوں نے 500 سے زائد میڈل جیتے ہیں جن میں اولمپک میں متعدد سونے کے تمغوں سمیت عالمی چیمپیئن شپ کے میڈلز بھی شامل ہیں اور دور حاضر کے کیوبا کے چند بہترین باکسرز کو تیار کرنے والے بھی وہ ہی ہیں۔

جب 2012 میں امریکا کی ٹیم نے ان کی خدمات حاصل کی تھیں تو انہیں 'دنیا کا سب سے بہترین کوچ' قرار دیا تھا۔

ماضی میں اپنے آبائی ملک کی کوچنگ کرنے والے پیٹر اس وقت ریو اولمپکس میں آذربائیجان کی ٹیم کی تربیت کر رہے ہیں اور انہیں امید ہے کہ ان کی نوجوان ٹیم یہاں کامیابیاں سمیٹنے میں کامیاب رہے گی۔

کیوبا سے تعلق رکھنے والے اکثر افراد کی طرح انہوں نے بھی ملک چھوڑنے کی وجوہات بتانے سے گریز کیا لیکن وہ باکسنگ میں اپنی متعدد کامیابیوں کا تذکرہ کرنا نہیں بھولے۔

آٹھ سال کی عمر میں باکسنگ کا آغاز کرنے والے پیٹر نے باکسنگ میں کامیابی کے راز کے بارے میں سوال پر کہا کہ میں نے اپنی پوری زندگی باکسنگ کیلئے وقف کردی۔ آپ کو لگن کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض اوقات کامیابی کے حصول کیلئے آپ کو اپنے اہلخانہ تک کو بھولنا پڑتا ہے۔

'میں نے 45 سال تک سیکھا اور سکھایا لیکن سیکھتے رہنا چاہتا ہوں۔ یہاں ہمارے پاس نوجوان ٹیم ہے لیکن وہ مجھ سے سیکھ رہے ہیں اور میں ان سے'۔

دنیا کے دیگر ملک بھی ان کے وسیع تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، وہ اب تک 70 سے زائد ملکوں کے نوجوان باکسرز کو تربیت فراہم کرچکے ہیں۔

اپنی آبائی زبان ہسپانوی میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب آپ مختلف ثقافتوں اور کھانوں کے حامل اتنے لوگوں سے ملتے ہیں، تو یہ سب آپ میں علم کے حصول کی مزید طلب پیدا کرتے ہیں اور جو بھی چیز آپ سیکھتے ہیں وہ زندگی میں آپ کے کام آتی ہے۔

'ایک زبان''

ملنسار روکیو نے ماسکو اسٹیٹ یونیوسٹی سے اسپورٹس میں پی ایچ ڈی کررکھی ہے۔

وہ جانتے ہوئے اس مضمون میں زندہ رہنا نہیں چاہتے لیکن انھوں نے بیجنگ اولمپکس کے ایک سال بعد 2009 میں کیوبا کی ٹیم کو خیرباد کہہ دیا تھا، 2008 کے اولمپکس میں کیوبا ناقابل فہم انداز میں باکسنگ کا ایک بھی گولڈ میڈل جیتنے میں ناکام رہا۔

کیوبن باکسنگ ٹیم کے کوچ کی ذمہ داری سنبھالنے سے قبل روکیو نے نوجوانوں پر مشتمل قومی ٹیم کی رہنمائی کی اور ان کی زیرسرپرستی میں 3 گولڈ میڈلسٹ فیلکس، سیون، سابق سپر فیدرویٹ چمپیئن جوئیل کیسامیور، گولڈ میڈلسٹ یوریورکیوس گیمبوا اورموجودہ چمپیئن گلیرمو ریگون ڈیوکس رہ چکے تھے۔

وہ 2010 میں کیوبا سے ہجرت کرکے امریکا کے شہر میامی میں اپنی بہن کے ساتھ رہائش پذیر ہوئے، جہاں کیوبا کی سب سے بڑی برادری موجود تھی۔

اب جبکہ وہ اپنے آبائی وطن سے دور ہیں لیکن ریو میں موجود کیوبا کی ٹیم میں روکیو کا احترام اب بھی پایا جاتا ہے جہاں نوجوان باکسرز ان سے ملنے کو بے تاب ہیں۔

آذر بائیجان کے باکسرز سے روسی زبان میں وہ اکثر بات کرتے ہیں، لیکن مکے بازی کی گرمی اس قدر ہوتی ہے کہ وہ بعض اوقات ہسپانوی زبان بھی استعمال کرتے ہیں۔

روکیو باکسرز سے پوچھتے ہیں کہ کیا ان کو ان کی بات سمجھ آرہی ہے؟

پھر مزید کہتے ہیں کہ 'باکسنگ کی ایک ہی زبان ہے'۔

پھر دوبارہ انگریزی زبان کا سہارا لیتے ہوئے وہ کہتے ہیں "پنچ، وار، جسم، سر . . . "