آزادی ٹرین: ثقافت اور تاریخ پہیوں پر
آزادی ٹرین: ثقافت اور تاریخ پہیوں پر
اگست اور ساون دونوں کا ہمیشہ کا ساتھ رہا ہے۔ جہاں برکھا رُت کھیتوں کھلیانوں میں سبزہ بکھیر دیتی ہے وہاں اگست کا آغاز سبز ہلالی پرچموں سے گلیوں بازاروں کو سبز رنگ میں ڈبو دیتا ہے۔
اور ایسا کیوں نہ ہو؟ آخر آزادی کا جشن جو ہے، جہاں قدرت بارشوں سے اپنے منفرد رنگوں اور سبزے کو زمین پر بکھیر کر زمین سے محبت کا اظہار کرتی ہے وہاں پر ہم حب الوطنی سے سرشار پاکستانی اپنے آباء و اجداد کے ایثار و قربانی کی علامت اس وطن عزیز سے بے پناہ محبت کو مختلف سطح کی تقریبات، گھر، گلی کوچوں کو سجا کر اور پورے جذبے سے ملی نغمے گا کر ظاہر کرتے ہیں۔
14 اگست کو بیجز کی صورت میں سینوں سے لگا ہمارا سبز پرچم مسلسل ہمارے چہرے پر فخر کو نمایاں کر رہا ہوتا ہے۔
ماہ اگست کی ابتدا ہوتے ہی ہر چوک چوراہے پر قومی پرچم اور جھنڈیوں کا ایک چھوٹا سا اسٹال ضرور دکھائی دیتا ہے جہاں بچوں کی دلچسپی کا سامان جیسے اسٹیکرز، ماسک اور بیجز بھی نظر آتے ہیں۔
آزادی کا جشن منانے میں تو یہی بچے سب سے آگے ہوتے ہیں، کہیں کوئی سبز کرُتا سلوانے پر بضد ہوتا ہے اور کہیں کوئی اپنی سائیکل سجانے پر مصر ہوتا ہے۔ اور گھروں پر جھنڈیاں لگانا بھی تو انہی کی ذمہ داری ہوتی ہے، بلند آواز میں ترانے اور ملی نغمے ان سے اچھے بھلا کون گا سکتا ہے؟
انہی جذبوں میں بچپن میں 14 اگست کے حوالے سے ہماری ان سرگرمیوں کی یادوں کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے جو عمر بڑھنے کے ساتھ ماند پڑ جاتی ہیں۔ اب ان ''شغلوں'' یا سرگرمیوں کے لیے وقت نکالنا مشکل ہو جاتا ہے تاہم ننھا سا قومی پرچم بیچ کی صورت سجا لیا جاتا ہے۔
ویسے تو جشن آزادی کی مناسبت سے قومی و مقامی سطح پر مختلف پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں، مگر اس بلاگ کی تحریر کا موضوع ان سرگرمیوں اور پروگرامز سے ایک ''آزادی ٹرین'' ہے، ایک ایسی ٹرین جسے ایک چھوٹا پاکستان کہہ لیا جائے تو بے جا نہ ہوگا-