پاکستان

بلوچ سماجی کارکن کی گمشدگی کا معاملہ پیچیدہ ہوگیا

ہیومن رائٹس کمشین آف پاکستان کی جانب سےعبدالواحدبلوچ کی گمشدگی کے حوالےسے سیکیورٹی حکام کو بھیجے گئےتمام خطوط واپس آگئے۔

کراچی: بلوچ سماجی کارکن عبدالواحد بلوچ کی گمشدگی کا معاملہ مزید پیچیدگی کا شکار ہوگیا، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے سیکیورٹی اداروں کو بھیجے گئے تمام خطوط واپس آگئے ہیں۔

لیاری کے علاقے چاکیواڑہ سے تعلق رکھنے والے بلوچ سماجی کارکن اور ناشر عبد الواحد بلوچ رواں برس 26 جولائی سے لاپتہ ہیں جبکہ ان کے اہلخانہ نے ان کی گمشدگی کا الزام قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عائد کرتے ہیں۔

واحد بلوچ کے اہل خانہ کے ہمراہ کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایچ آر سی پی سندھ چیپٹر کے وائس چیئرمین اسد اقبال بٹ نے بتایا کہ فیکٹ فائنڈنگ مشن کے قیام کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کئی خطوط بھیجے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچ سماجی کارکن عبدالواحد کراچی سے 'لاپتہ'

انہوں نے کہا کہ بھیجے گئے تمام خطوط وصولی کی تصدیق کے بغیر ہمارے پاس واپس آگئے ہیں اور ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ خطوط متعلقہ حکام تک پہنچے ضرور لیکن انہوں نے وصول نہیں کیے۔

پریس کانفرنس میں عبدالواحد بلوچ کی بیٹیاں ہانی اور ماہین بھی موجود تھیں اور ہانی نے اپنے والد کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے تفصیلات بتائیں۔

ہانی نے بتایا کہ 26 جولائی کو واحد بلوچ میرپور خاص کے علاقے ڈگری سے اپنے دوستوں سے ملاقات اور ایک تقریب میں شرکت کے بعد کراچی واپس آرہے تھے۔

واحد کے ساتھ ان کے ایک شاعر دوست صابر علی صابر بھی موجود تھے جو اپنے دو بچوں کے ساتھ سفر کررہے تھے۔

ہانی نے بتایا کہ جس گاڑی میں واحد اور ان کے دوست سفر کررہے تھے اسے سپر ہائی وے ٹول پلازہ پر دو افراد نے روکا جو سادہ لباس پہنے ہوئے تھے۔

انہوں نے پہلے صابر سے ان کا شناختی کارڈ مانگا اور اپنے موبائل پر کچھ دیکھنے کے بعد واپس کردیا، پھر انہوں نے واحد بلوچ سے شناختی کارڈ مانگا۔

دونوں افراد نے پھر اپنے موبائل پر کچھ دیکھا اور واحد سے اپنے سامان سمیت گاڑی سے اتر جانے کو کہا۔

ہانی نے بتایا کہ واحد کو اپنے ساتھ ایک نیلے رنگ کی ویگو گاڑی میں لے جانے سے قبل انہوں نے وین ڈرائیور سے کہا کہ جلدی سے یہاں سے چلے جائو۔

ہانی کے مطابق جب واحد کے اہل خانہ ٹول پلازہ کے برابر میں قائم گڈاپ پولیس اسٹیشن گئے اور ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی لیکن پولیس نے مقدمہ درج کرنے سے انکار کردیا۔

واحد کے بیٹی نے مزید بتایا کہ پولیس والوں نے کہا کہ 'آپ کے والد کو خفیہ ایجنسی والے لے گئے ہیں اور پولیس اس سلسلے میں زیادہ کچھ نہیں کرسکتی۔'

ہانی نے کہا کہ ایک پولیس افسر نے ہمیں 90 روز تک انتظار کرنے کا کہا۔

اسد اقبال بٹ نے ہانی کے بیان کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں سیکیورٹی حکام خاص طور پر پولیس کی معاونت حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے کیوں کہ پولیس اس معاملے میں مداخلت کرنے کو تیار نہیں۔

ہانی نے کہا کہ بہت زیادہ اصرار کرنے کے بعد پولیس نے ایک سادہ کاغذ پر واقعے کی تفصیلات لکھیں اور ہمارے حوالے کردیا۔

سول ہسپتال کراچی کی جانب سے جاری ہونے والے خط جس میں اعتراف کیا گیا کہ عبدالواحد سول ہسپتال میں ملازم ہے اور پولیس کے دیے ہوئے کاغذ کی بنیاد پر واحد کے اہل خانہ نے 2 اگست کو سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔

اقبال بٹ نے کہا کہ ہم نے درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ اگر واحد بلوچ نے کچھ غلط کیا ہے تو اسے عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اقبال بٹ اس معاملے میں متاثرہ خاندان کی مدد کررہے ہیں اور اس سلسلے میں کیس کی سماعت 15 اگست کو شیڈول ہے۔

واحد بلوچ کی گمشدگی کی تحقیقات کیلئے 3 اگست کو ایچ آر سی پی کی جانب سے فیکٹ فائنڈنگ مشن تشکیل دیا گیا تاہم اقبال بٹ کا کہنا ہے کہ مشن کو سیکیورٹی حکام تک رسائی حاصل کرنے میں مسائل کا سامنا ہے۔

اقبال بٹ نے بتایا کہ جب کو سیاسی یا سماجی کارکن کسی دوسرے شہر یا قصبے میں جاتا ہے تو یہ قدرتی بات ہے کہ وہ کئی لوگوں سے ملاقات کرتا ہے اور مختلف مسائل پر بات کرتا ہے۔

یہ بیان ان رپورٹس کے جانب اشارہ تھا جس کی تصدیق پولیس اور ایچ آر سی پی کے نمائندہ نے بھی کی ہے کہ ڈگری میں بعض سندھی قوم پرستوں نے واحد بلوچ سے ملاقات کی تھی اور پاک چین اقتصادی راہ داری اور خطے کے دیگر معاملات پر گفتگو کی تھی۔

اقبال بٹ کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اکثر ایچ آر سی پی پر الزام عائد کرتے ہیں کہ ہم ان کا موقف نہیں لیتے لہٰذا ہم ایک بار پھر سیکیورٹی حکام سے رابطہ کرنے کی کوشش کریں گے اور ان سے درخواست کریں گے کہ وہ واحد بلوچ کی گرفتاری کو قانون کے دائرے میں لائیں۔