پاکستان

'نیکٹا میں مسائل کی وجہ حکومتی عدم توجہ'

نیکٹا کے سربراہ کا کہنا ہے کہ بورڈ آف گورنرز کے اجلاس کیلئے فائل وزیراعظم ہاؤس ارسال کی تھی، جس کا اب تک جواب نہیں آیا۔

اسلام آباد: قومی ادارہ برائے انسدادِ دہشت گردی (نیکٹا) کے سربراہ احسان غنی نے واضح کیا ہے کہ ادارے کے درست انداز میں کام نہ کرنے کی وجہ افسران کی نااہلی نہیں، بلکہ حکومت کی عدم توجہ ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز آئی' میں گفتگو کرتے ہوئے نیکٹا کے سربراہ کا کہنا تھا کہ قوانین کے مطابق سال میں چار مرتبہ بورڈ آف گورنرز کا اجلاس ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سےاب تک ایک اجلاس بھی نہیں ہوسکا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'جو میرا کام تھا وہ میں نے کیا اور بورڈ کےاجلاس کے لیے فائل وزارتِ داخلہ کو ارسال کردی اور جب انھوں نے اُس فائل کو وزیراعظم ہاؤس بھیجا تو وہاں سے اب تک کوئی جواب نہیں آیا'۔

اس سوال پر کہ کیا آپ نے وزیر داخلہ چوہدری نثار سے اس حوالے سے کوئی بات کی؟ احسان غنی کا کہنا تھا کہ جو وجوہات تھیں وہ میں نے بتا دی ہیں، اب آپ کو وزیراعظم ہاؤس سے رابطہ کرنا چاہیے۔

احسان غنی نے کہا کہ 'جب میں نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالا تو ہمارے پاس دفتر میں افسران کو بٹھانے تک کی جگہ موجود نہیں تھی، لیکن اس مسئلے کو عارضی طور پر حل کیا گیا اور اب ان لوگوں کو نیشنل پولیس بیورو کی عمارت میں منتقل کردیا گیا ہے'۔

تاہم، ان کا کہنا تھا کہ جگہ کے اس مسئلے کو مستقبل بنیادوں پر حل کرنے کےلیے ہم نے وزارتِ خزانہ کو درخواست ارسال کردی ہے اور امید ہے کہ اسے منظور کرلیا جائے گا، کیونکہ قومی بجٹ میں اس کا ذکر کیا گیا تھا۔

نیکٹا کے سربراہ نے شکوہ کیا کہ دفتر کی جگہ کے مسئلے کو تو 2013 میں ہی حل ہوجانا چاہیے تھا، کیونکہ جب آپ کے پاس بیٹھنے کی جگہ نہیں ہوگی تو کون یہاں پر کام کرنے آئے گا۔

انھوں نے صوبوں کے عدم تعاون کا بھی شکوہ کیا اور کہا کہ اگرچہ وزیراعظم نے منظوری دی تھی کہ نیکٹا کو جو افسران درکار ہوں گے، وہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن فوری اسے دے گا، مگر جب صوبوں سے اس بارے میں بات کی جاتی ہے تو وہ انکار کردیتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب انھوں نے دفتر سنبھالا تو افسران کی ایک بڑی تعداد نیکٹا میں شامل ہونا چاہتی تھی، لیکن صوبوں نے اجازت نہیں دی۔

نیکٹا چیف کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے پاس بھرتی کے لیے ایسے لوگ بھی آئے جو ایک کمرے اور عام سی گاڑی کے ساتھ بھی کام کرنے کے لیے راضی تھے، لیکن مسئلہ افسران کا نہیں، انتظامیہ کا ہے۔

احسان غنی نے کہا کہ اگر حکومت یہ تمام مسائل حل کردے تو ہمیں تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کا تعاون اور ان کی حمایت حاصل ہوگی۔

انھوں نے ادارے کے فعال نہ ہونے کے تاثر کو مسترد کیا اور کہا کہ اس وقت ہم ملک میں انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے ایک پالیسی بنانے پر کام کررہے ہیں، جس کے لیے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ہمارے ساتھ تعاون کیا ہے۔

پروگرام کے دوران جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ وزیراعظم تو کہتے ہیں کہ انھوں نے ملک سے انتہاپسند سوچ کو ختم کرنا ہے تو پھر اس پر کام کون کرے گا؟ جس پر احسان غنی نے کہا کہ وہ نواز شریف سے شکایت نہیں کریں گے، لیکن جو مسائل انہیں درپیش ہیں اس بارے میں وہ سب کچھ بتا چکے ہیں۔

واضح رہے کہ احسان عنی نے یہ بات ایک ایسے وقت میں کہی ہے جب کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ہونے والے خوکش بم دھماکے کے بعد ملک میں انٹیلی جنس کے کردار پر کئی سوالات ابھر کر سامنے آئے ہیں۔

اسی حوالے سے گذشتہ روز وزیراعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ دشمن کے عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے انٹیلی جنس ایجنسیاں دن رات کام کررہی ہیں۔

مزید پڑھیں: ’دشمن کو شکست دینے کیلئے ایجنسیاں دن رات کام کر رہی ہیں‘

وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ کوئٹہ سانحے کے باعث دل انتہائی غمزدہ ہے، لیکن ہم پہلے سے زیادہ قوت سے آگے بڑھیں گے اور دہشت گردی کو ہر صورت ختم کریں گے۔

دوسری جانب کوئٹہ خود کش بم دھماکے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے اسلام آباد میں ہونے والے سیاسی و عسکری قیادت کے اہم اجلاس میں ایک مرتبہ پھر نیکٹا کی کار کردگی پر بات ہوئی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ انٹیلی جنس کو مضبوط کرنے کے لیے ادارے کو فعال کیا جائے۔

یاد رہے کہ مارچ 2013 میں پارلیمنٹ کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں ملک سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے قومی ادارہ برائے انسدادِ دہشت گردی (نیکٹا) کے قیام کا بل منظور کیا گیا تھا۔

نیکٹا کے اس ایکٹ 2013 میں واضح کیا گیا تھا کہ 90 دن کے دوران حکومت نیکٹا کو قائم کرکے اسے فعال کرنے کی پابند ہوگی، جبکہ اتھارٹی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے تمام ایجنسیوں سے معلومات حاصل کرکے قومی سلامتی کو درپیش خطرات کا تعین کرے گی۔