سانحات، افسردگی اور تباہی، کوئٹہ ان سے اچھی طرح واقف ہے۔ مگر جب موت اپنے بلند خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے میں سرگرداں آپ کے ایک نوجوان ساتھی کو چھین کر لے جائے، تو کچھ چھن جانے کا احساس انتہائی گہرا اور شدید ہوتا ہے۔
ڈان نیوز کے کوئٹہ میں بیورو چیف کی حیثیت سے میں نے سوال ہسپتال میں خودکش حملے میں ہلاک ہونے والے ہمارے کیمرا مین محمود خان کے ساتھ قریبی طور پر کام کیا ہے۔
محمود خان 8 اگست کو اس خودکش حملے میں ہلاک ہوئے جس نے 70 سے زائد افراد کی جانیں لیں، جن میں سے زیادہ تر وکلاء تھے۔
جب فائرنگ سے ہلاک ہونے والے وکیل بلال انور کاسی کی لاش ایمرجنسی وارڈ لائی گئی، تو انہیں فوٹیج لانے کے لیے فوراً سول ہسپتال جانا پڑا۔ جیسے ہی وہاں مجمع جمع ہوا، تو خودکش بمبار نے حملہ کر دیا اور اپنے ساتھ کئی دیگر افراد، بشمول ہمارے پیارے محمود خان کی جان لے لی۔
آج ان کی وفات کے تین دن بعد ان کی 26 ویں سالگرہ ہے۔ میں اب تک اس بات کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ان کے خاندان اور ان کے دوستوں کے لیے ان کا نقصان کیا معنیٰ رکھتا ہے۔
ان کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ، سات بچے اور والدہ شامل ہیں۔
کوئٹہ کے علاقے کلی شابو میں ان کے مٹی کے گھر میں ان کے خاندان سے تعزیت کرتے وقت میری آنکھوں کے سامنے ان کے ساتھ گزارے ہوئے یادگار لمحے گھومنے لگے۔
یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ ان کی نوجوان اہلیہ اور چھوٹے بچوں کو اب محمود کے بغیر رہنا پڑے گا۔ جب میں ان کے مسکراتے ہوئے چہرے کے بارے میں سوچتا ہوں تو میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ یہ خاندان اب اپنا گزر بسر کیسے کرے گا؟
ان کے بھائی روزی محمد بتاتے ہیں کہ محمود کی چھے سالہ بیٹی بی بی ملائکہ رات کو بمشکل سو پاتی ہے۔
وہ اس بات سے بے خبر ہے کہ اس کے گھرانے پر کیا قیامت گزر چکی ہے اور اس بات کی ضد لگائے ہوئے ہے کہ اسے پاپا کے ساتھ ہی سونا ہے۔
وہ پوچھتی ہے کہ 'پاپا کب آئیں گے، 'مجھے ان کے ساتھ سونا ہے'۔
روزی خان نے چھلکتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ بتایا کہ پہلے بھی ملائکہ اپنے والد کا رات دیر تک انتظار کرتی تھی اور ان کے آنے کے بعد ہی سویا کرتی تھی اور اب بھی وہ رات بھر روتی ہے اور اپنے والد کو یاد کرتی ہے۔
جب محمود خان 15 برس کے تھے، تو ان کے بھائی کا طبعی وجوہات کی بناء پر انتقال ہو گیا تھا۔ محمود خان نے اپنے بھائی کی بیوہ سے شادی کی جن کے پہلے ہی 3 بچے تھے۔
گھر کے سامنے تنگ گلی میں ننگے پاؤں کھڑا 11 سالہ محمد ابراہیم گھر پر تعزیت کے لیے آنے والے لوگوں کو مضطرب نگاہوں سے دیکھتا ہے۔
مجھے آتا دیکھ کر ابرہیم نے کہا کہ "میں آپ کو پہچانتا ہوں، آپ شاہ صاحب ہیں نا"۔ اس کی مسکراہٹ بالکل اپنے باپ جیسی ہے۔