صحت

بے خوابی سے نجات دلانے والے 6 عام طریقے

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سونے کی کوشش کرتے ہیں مگر نیند آنکھوں سے دور بھاگ جاتی ہے تو اس سے بچنا زیادہ مشکل نہیں۔

آج کے دور کی مصروفیات نے نیند کا اوسط دورانیہ 6 گھنٹوں تک پہنچا دیا ہے (طبی ماہرین 7 سے 8 گھنٹے تک سونے کا مشورہ دیتے ہیں)۔

لگ بھگ ہر ایک کو اچھی نیند کی اہمیت کے بارے میں علم ہے مگر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سونے کی کوشش کرتے ہیں مگر نیند آنکھوں سے دور بھاگ جاتی ہے۔

اگر آپ رات کی اچھی نیند چاہتے ہیں تو ان آسان طریقوں کو آزما کر دیکھیں اور بغیر ادویات کے بے خوابی کے عارضے سے نجات پائیں۔

گرم دودھ اور شہد کا استعمال

رات کو سونے سے قبل ایک گلاس شہد ملا گرم دودھ بہترین نیند لانے کا زبردست گھریلو ٹوٹکا ہے۔ دودھ میں ایک امینو ایسڈ ٹرائیپٹوفان موجود ہوتا ہے جو ایک ہارمون سیروٹونین کی مقدار بڑھاتا ہے جو دماغ کو نیند کے سگنلز بھیجتا ہے۔ کاربوہائیڈیٹس جیسے شہد اس ہارمون کو تیزی سے دماغ میں پہنچاتے ہیں۔

نیند دوست ماحول بنانا

جو لوگ بے کوابی کے شکار ہو ان کے لیے پرسکون اور نیند والا ماحول بہتر ثابت ہوتا ہے، اس کے لیے موبائل فون اور لیپ ٹاپ سمیت تمام تر ڈیوائسز کو کمرے سے باہر یا کم از کم بستر سے دور رکھ دیں، کیونکہ ان پر آنے والے نوٹیفکیشن نیند میں مداخلت کا باعث بنتے ہیں۔

ورزش کو آزمائیں

اگر کسی قسم کی بے چینی رات کو جگائے رکھتی ہے تو یوگا، مراقبہ یا ڈائری لکھنے کی کوشش کریں، تائی چی بھی ذہنی تناﺅ میں کمی لان والی طاقتور ورزش ہے، ایک تحقیق کے مطابق اس ورزش کی عادت لوگوں کو جلد سلانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

سونے کا وقت طے کرلیں

اگر آپ اکثر رات کو جاگتے رہتے ہیں تو آپ کے آسان ترین گھریلو نسخہ وقت طے کرلینا ہے، یعنی روزانہ ایک ہی وقت پر بستر پر جانے اور صبح اٹھنے کو ترجیح بنالیں، اسی طرح سونے سے قبل مطالعہ یا موسیقی سننا بھی دماغ کو سکون پہنچا کر نیند کے لیے تیار کرتا ہے۔

نیم گرم پانی سے نہانا

ویسے یہ طریقہ گرمیوں میں تو کارآمد نہیں تاہم سردیوں میں سونے سے ڈیڑھ سے دو گھنٹے پہلے گرم پانی سے نہانے کی عادت اچھی نیند کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔

ادویات کو دیکھیں

متعد ادویات نیند پر اثرانداز ہوکر بے خوابی کا باعث بنتی ہیں، اگر آپ کسی مرض کے شکار ہیں اور نیند کا مسئلہ درپیش ہے تو اپنے ڈاکٹر سے بات کرکے ادویات یا ان کی مقدار میں تبدیلی کا مشورہ لیں۔

نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے۔ قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔