نقطہ نظر

لیڈی ریڈنگ ہسپتال یا عبدالستار ایدھی ہسپتال؟

پی ٹی آئی کے ایم پی اے ضیا اللہ آفریدی نے قرارداد جمع کروائی ہے کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کا نام ایدھی کے نام پر کر دیا جائے۔
Welcome

ہمارے صحافی دوست اکثر ہم سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ ڈان اردو پر صرف کراچی کے لیے لکھنے کے پابند ہیں۔ ہم انہیں بتاتے ہیں کہ نہیں ایسا کچھ نہیں ہے، ہم گاہے بگاہے دیگر شہروں سے بھی کہانیاں لاتے ہیں مگر کیا کریں، ہماری مکمل وابستگی اب کراچی سے ہے۔ کیوں ہے؟ اس کا جواب بقول ابنِ انشاء "جاننے والے جانے ہیں۔"

بہرحال پچھلے دنوں ایسا ہی ایک سوال ہمارے دوست عزیز سنگور نے کیا۔ ہمارا جواب وہی تھا۔ وہ سرگوشی میں بولے کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کا نام تبدیل ہونے لگا ہے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ وہ سرگوشی میں کیوں بولے، اُس کی وجہ یہ ہے کہ اگر پریس کلب میں آپ کے آس پاس کوئی ’چیتا‘ قسم کا صحافی بیٹھا ہوا ہو تو موضوع اُڑنے میں دیر نہیں لگتی۔

لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاورکی بنیاد 1926 میں رکھی گئی تھی جبکہ شوکت خانم ہسپتال کے قیام کا اعلان 1989 میں لاہور قذافی اسٹیڈیم میں پاکستان انڈیا کرکٹ میچ کے دوران عمران خان نے کیا تھا۔

پڑھیے: ایک اسٹریٹ صرف کاغذات پر

لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی بنیاد اور شوکت خانم کینسر ہسپتال کے قیام کے دوران 63 برسوں کا وقفہ ہے۔ 1989 سے لے کر 2016 کے درمیان 27 برس کا وقفہ ہے۔ یہ عرصہ کل ملا کر 90 برس بنتا ہے۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال اور شوکت خانم میموریل ہسپتال کے درمیان ایک چیز مشترک ہے کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاورمیں ہے جبکہ اس وقت خیبر پختونخواہ میں عمران خان کی تحریک انصاف کی حکومت ہے۔

18 جولائی 2016 کو تحریکِ انصاف کے ایک ایم پی اے ضیاء اللہ آفریدی نے، جو آج کل کرپشن کے الزامات کا سامنا کرتے ہوئے علیل ہوگئے ہیں اور غالباً پولیس کے کسی ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں، نے صوبائی اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی ہے کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کا نام تبدیل کر دیا جائے۔

لیڈی ریڈنگ نے تو ہسپتال اس لیے بنوایا تھا کہ وہ خود پشاور میں حادثے سے دوچار ہوئیں تھیں، لیکن اُس وقت ان کی طبی امداد کے لیے پشاور اور گرد و نواح میں کوئی ہسپتال نہیں تھا۔

عمران خان کا معاملہ دیگر تھا۔ اُن کی والدہ کا کینسر کی وجہ سے انتقال ہوا اور اُس وقت پاکستان میں کینسر کا علاج ممکن نہیں تھا اس لیے انہوں نے پاکستان میں کینسر کے مریضوں کے لیے ایک بہت بڑے ہسپتال کے قیام کا عزم کیا اور اس میں کامیاب بھی ہوئے۔

لیڈی ریڈنگ، جن کا حقیقی نام ایلس آئیزیکس تھا، نے اس ہسپتال کی بنیاد کس طرح ڈالی یہ ایک دلچسپ کہانی ہے۔ وکی پیڈیا کے مطابق عالی جناب لارڈ ریڈنگ جو 1921ء سے لے کر 1926ء تک ہندوستان کے وائسرائے تھے، وہ اپنی بیوی کے ساتھ پشاور آئے ہوئے تھے اور قلعہ بالا حصار سے شہر کا جائزہ لے رہے تھے۔

مزید پڑھیے: ہندو موتی اور مسلم جگر

لیڈی ریڈنگ قلعے کی فصیل سے شہر کا نظارہ دیکھ کر تجسس کا شکار تھیں۔ انہوں نے شہر دیکھنے کے لیے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ اُن کی خواہش کے مطابق شہر گھومنے کے لیے انہیں گھوڑا فراہم کیا گیا اور انہوں نے گھوڑے پر شہر کا دورہ کیا۔

قلعے کی جانب واپسی کے دوران ان کا گھوڑا لڑکھڑایا اور وہ نیچے گر پڑیں۔ انہیں فوری طور پر ایجرٹن ہسپتال لے جایا گیا، لیکن وہاں مناسب طبی سہولتیں نہ ہونے کے باعث انہیں رائل آرٹلری ہسپتال (موجودہ کمبائنڈ ملٹری ہسپتال) منتقل کیا گیا، جہاں وہ علاج معالجے کے بعد صحت یاب ہوگئیں۔

یہی سبب تھا کہ انہوں نے سوچا کہ پشاور میں ایک اچھا ہسپتال ہونا چاہیے۔ 1926 میں لارڈ ریڈنگ کی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ دوبارہ پشاور تشریف لائیں۔ انہوں نے ہسپتال کے قیام کے لیے مہم کا آغاز کیا اور اپنی جانب سے 52 ہزار روپے کا چندہ دیا۔ آخرکار یہ ہسپتال قائم ہوگیا۔

پشاور کے شہریوں نے طے کیا کہ لیڈی ریڈنگ کی ہسپتال کے قیام کے لیے کاوشوں کے عوض ہسپتال کا نام لیڈی ریڈنگ رکھا جائے، چنانچہ تب سے ہی یہ ہسپتال اسی نام سے قائم ہے، اور صوبے بھر کے لوگوں کو طبی سہولیات فراہم کر رہا ہے۔

لیکن حال ہی میں پاکستان تحریکِ انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی ضیاء اللہ آفریدی نے ہسپتال کا نام تبدیل کروانے کے لیے اپنے دستخط سے ایک قرارداد صوبائی اسمبلی میں جمع کروائی ہے، جس کا متن حسبِ ذیل ہے:

قرارداد

یہ اسمبلی صوبائی حکومت سے اس امر کی سفارش کرتی ہے کہ جناب عبدالستار ایدھی مرحوم نے پاکستان اور پاکستان کے عوام کے لیے سماجی کارکن کی حیثیت سے بے پناہ خدمات انجام دی ہیں، جن کی پوری دنیا معترف ہیں۔ صوبے کے سب سے بڑے ہسپتال لیڈی ریڈنگ کو عبدالستار ایدھی (مرحوم) کے نام سے منسوب کیا جائے تاکہ اُن کی خدمات کو خِراج عقیدت پیش کیا جاسکے۔
ضیاء اللہ آفریدی
ایم پی اے
پی کے I پشاور
18 جولائی 2016


یہ نام رکھنے کی تجویز تو دی گئی ہے لیکن یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ نامور صحافی رحیم اللہ یوسفزئی کے مطابق تقسیمِ ہند کے بعد بارہا یہ کوشش کی گئی کہ اس ہسپتال کا نام تبدیل کرکے کسی مسلمان کے نام پر رکھا جائے۔ خصوصاً مشہور پشتون صوفی شاعر رحمان بابا کے نام پر۔ لیکن کئی وجوہات کی بناء پر یہ کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔

ہم اپنے کئی بلاگز میں اس بات کا ذکر کر چکے ہیں کہ کس طرح قیامِ پاکستان کے بعد چن چن کر ان سڑکوں اور عمارتوں کے نام تبدیل کیے گئے جن کے نام کسی انگریز، ہندو، پارسی یا کسی بھی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے شخص سے منسوب تھے۔

جانیے: موہٹہ پیلس -- قصر فاطمہ نہ بن سکا

یہ کسی بھی شہر اور کسی بھی ملک کی سماجی تاریخ کے ساتھ بہت زیادتی ہے ہے کہ کسی شخص کو حاصل اس کی خدمات کا کریڈٹ چھین لیا جائے۔ اگر یہ ہسپتال لیڈی ریڈنگ کے نام سے منسوب ہے تو اس لیے نہیں کہ وہ وائسرائے کی اہلیہ تھیں، بلکہ اس لیے کہ یہ ہسپتال ان ہی کی کوششوں سے قائم ہوا اور آج تک لوگوں میں فیض بانٹ رہا ہے۔

میں نہیں سمجھتا کہ ایدھی صاحب کے اہل خانہ میں سے کوئی ہسپتال کے نام کی تبدیلی کو مناسب سمجھے گا۔ وہ ایک بہت عظیم انسان تھے۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے نام کو ان کے نام سے منسوب کرنے کے بجائے جناب ضیاء اللہ آفریدی اور ان کی پارٹی کو چاہیے کہ ایدھی صاحب کی سوانح حیات جس کی تالیف تہمینہ درانی نے کی ہے اور پہلی بار 23 مارچ 1998 کو شایع ہوئی تھی، اس کا مکمل مطالعہ کریں۔

ضیاء صاحب کی سہولت کے لیے ہم کتاب کے آخری دو صفحات پر درج ایدھی صاحب کے خیالات کو نقل کر رہے ہیں۔

"آج میں پھر اپنی والدہ کی اس چارپائی پر بیٹھا تھا...... بلقیس فرش کی صفائی کر رہی تھی۔ تھک کر وہ ننگے فرش پر..... دروازے کی دراڑ سے سانس لینے لگی۔ شاید وہاں سے تازہ ہوا آرہی ہوگی.... میں نے بے ساختہ کہا..... ’’بلقیس، ہم نے اپنے لیے ’دو گز زمین‘ کا انتخاب کرلیا ہے۔ بلقیس کہنے لگی..... ’آپ تو میرے اگلے جہان کے سفر کی تیاری اور انتظار کیے بیٹھے ہیں..... آپ موت کے سوا کوئی بات ہی نہیں کرتے‘۔ میں نے کہا....’ موت کے برحق ہونے میں کوئی شبہ نہیں.....لیکن تمہارے بغیر زندگی کسی طرح قابل قبول نہیں..... یہی تمنا ہے کہ مریں تو ایک ساتھ اور...... دفن ہوں تو ساتھ ساتھ۔

"کراچی سے ستر کلومیٹر دور، شاہراہ اعظم پر واقع ’’ایدھی ولیج‘‘ کی دیوار کے سامنے بورڈ پر تحریر کروانے کا سوچا..... یہ مقام، میری آخری آرام گاہ ہوگا..... بلقیس نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ..... چپ چاپ کسی ویران جگہ دفن ہوجائیں..... کسی شاہراہ پر، جہاں تیز رفتاری کے باعث حادثات روزانہ کا معمول ہوں..... شاید سڑک کے کنارے ہماری قبریں دیکھ کر ڈرائیور ہمارا پیغام یاد کرلیں اور اپنی گاڑیوں کی رفتار آہستہ رکھیں..... کاش، ہماری سر راہ قبریں، کچھ انسانی جانیں بچانے کا وسیلہ بن جائیں!"

جانیے: فاطمہ جناح ہاؤس، قائداعظم ہاؤس میوزیم یا فلیگ اسٹاف ہاؤس؟

یہ تھے ایدھی صاحب کے خیالات، وہ ایک وسیع القلب، روش خیال، ترقی پسند انسان تھے۔ وہ مذہبی طور پر کوئی بھید بھاؤ نہیں رکھتے تھے۔ ضیاء اللہ صاحب کوشش کریں کہ آپ اور تحریک انصاف ایدھی صاحب کے نام سے پشاور کے کسی پسماندہ علاقے میں کوئی نئی میڈیکل یونیورسٹی قائم کریں تاکہ عوام اُس سے مستفید ہو کر ایدھی صاحب کے ساتھ ساتھ عمران خان اور ان کی پارٹی کو بھی یاد رکھیں۔

ایدھی صاحب اس ملک کی جس قدر خدمت کر گئے ہیں، انہیں اس بات کی ضرورت نہیں کہ ان کے نام سے ہسپتال اور سڑکیں منسوب کی جائیں، ان کا اپنا کام اور اپنی شخصیت انہیں ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔

لیکن ہسپتال کا نام ایک انسان دوست اور دردمند خاتون کے نام پر ہے اور اسے تبدیل کرنا لیڈی ریڈنگ کی خدمات کا انکار کرنے کے برابر ہوگا۔

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔