نقطہ نظر

اپنی مفلوج بہن کی تیمارداری نے مجھے کیا سکھایا؟

ہمارے شعور کا ایسے چیلنجز سے ہی گہرا تعلق ہے اور ان سے نمٹنے کا بہترین طریقہ ثابت قدم ہو کر ان کا مقابلہ کرنا ہے۔

اگر زندگی نے مجھے ایک چیز سکھائی ہے تو وہ یہ ہے کہ انسان اس وقت تک اپنے اندر موجود صلاحیت اور قوت سے ناآشنا رہتا ہے جب تک کہ اس پر مشکل وقت نہیں آجاتا۔

میری بڑی بہن کے حادثے سے پہلے تک میں خود سے حقیقی معنوں میں مل ہی نہیں پائی تھی۔ اس وقت میں محض 15 برس کی تھی، ایک لاپرواہ نوجوان۔

میری بہن ایک سمجھدار اور شوخ لڑکی تھیں، مگر بچپن میں وہ مجھے کافی تنگ کیا کرتی تھیں۔ مجھ سے عمر میں پانچ سال بڑی ہونے کی وجہ سے وہ اپنے بڑے ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے رویوں کو درست ٹھہراتی تھیں، شاید اسی لیے ہم دونوں کا تعلق محض رسمی بن گیا اور ہم الگ تھلگ سے رہنے لگے تھے۔

ایک دن وہ ڈرائیونگ کر رہی تھیں، تب ان کی گاڑی ایک پل سے نیچے گر گئی، اور ایک اور گاڑی نے ٹکر مار دی۔ ان کو دائمی نقصان پہنچا اور ان کی کمر سے نیچے جسم کا نچلا حصہ مفلوج ہو گیا تھا۔

ان کے ایکسیڈنٹ کے بعد سب کچھ تبدیل ہو گیا۔

یہ 12 برس پہلے کی بات ہے۔

پڑھیے: معذوری کی وجہ: ڈاکٹروں کی غفلت


جلد ہی میں اپنی بہن کی سب سے اہم تیمادار بن گئی تھی۔ میں نے اپنا تمام وقت ان کے لیے وقف کر دیا تھا۔

پہلے تو میرے گھر والوں نے ان کی مدد کے لیے نرسز رکھیں، مگر ان کی جانب سے بھاری فیس کے مطالبے اور پرائیویسی کو لے کر ہمارے خدشات کے پیش نظر ہم نے انہیں فارغ کر دیا۔

میری بہن کو اٹھانے بٹھانے اور دوسری جگہوں تک لے جانے میں میرے بھائی نے بہت بڑا کردار ادا کیا، مگر چونکہ وہ ایک لڑکا تھا اس لیے وہ ہماری بہن کی ذاتی ضروریات کے معاملات میں اس طرح مدد نہیں کر سکتا تھا جس طرح میں کر سکتی تھی۔

میرے والدین اس تمام تر صورتحال سے ٹوٹ گئے تھے مگر خود کو حوصلہ دینے اور پرامید رکھنے میں کامیاب رہے تھے۔ اپنی بہن کی ذمہ داریوں کا ایک بڑا حصہ اپنے سر لے کر میں نے ان کی پریشانی کو کچھ کم کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں اکیلے ہی سب کچھ سنبھال سکتی ہوں۔

میری بہن کے لیے چلنا اب ایک تاحیات جدوجہد کا نام تھا۔ ان کو صاف رکھنے سے لے کر، ان کی فزیوتھیراپی کا خیال رکھنے اور بالآخر ان کا جذباتی سہارا بننے تک میں ہی ان سب چیزوں کی ذمہ دار تھی۔

یہ سب بہت مشکل تھا — مجھے ہر وقت ان کی فکر لگی رہتی تھی اس لیے میں راتوں کو اٹھ اٹھ کر اپنی بہن کو ان کے کمرے میں چیک کرنے جاتی۔ مجھے اس بات کو یقینی بنانا ہوتا تھا کہ وہ بستر پر درست انداز میں لیٹی ہوں؛ سوتے وقت ان کا جسم ٹھیک پوزیشن میں ہو تاکہ پریشر کی وجہ سے ان کے جسم میں سوزش پیدا نہ ہو۔

جن دنوں وہ پریشانیوں سے تنگ آ کر اپنی بھڑاس مجھ پر نکال بیٹھتیں، وہ میرے لیے سب سے زیادہ امتحان کا وقت ہوتا۔ ان کی اور اپنی جنگوں سے نمٹنا انتہائی اکتاہٹ کا شکار بنا دیتا تھا۔ ایسے مواقع پر اپنی خواہشوں اور آرزوؤں کو اپنی بہن کی خاطر دبا دینے سے ایک چھوٹی سی فتح کا احساس پیدا ہوتا تھا، مگر کسی دن میرے بھی صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا تھا اور بعد میں خود کو اپنی خودغرضی پر جھڑک دیتی۔

مزید پڑھیے: معذور نہیں، منفرد بچے

مسلسل ذہنی پریشانی اور بے خواب راتوں کے باوجود بھی میں ہر صبح کلاس لینے میں کامیاب رہی۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ اس سے میری پڑھائی کا نقصان ہو رہا تھا۔ میرا زیادہ سے زیادہ وقت اپنی بہن کا خیال رکھنے میں صرف ہوتا تھا جس وجہ سے میں پڑھائی کو زیادہ توجہ نہیں دے پاتی تھی۔

میری معاشرتی زندگی بھی انتہائی محدود ہو گئی تھی۔ جب میرے دوست کبھی ملاقاتیں کر رہے ہوتے، کبھی شاپنگ پر ساتھ جا رہے ہوتے یا پھر کسی دن ریسٹورینٹ میں کھانا کھا رہے ہوتے، اس وقت میں اپنی بہن کے ہمراہ ہسپتالوں، چیک اپس اور ان کے فالو اپس وغیرہ میں مصروف ہوتی۔

دوستوں کے ساتھ شامل ہونے سے بار بار انکار کرنے کی وجہ سے انہوں نے مجھے بلانا ہی چھوڑ دیا۔ انہیں سمجھ ہی نہ آتا کہ میں کیوں انکار کرتی تھی۔ اب میں بالکل اداس اور اکیلا محسوس کرنے لگی تھی۔

میرے چاچا ہی وہ واحد شخص تھے جو میری رنجشوں کو سنتے تھے۔ وہ بچپن سے ہی میرے کافی قریب رہے تھے۔ جب کبھی بھی مجھ پر کوئی مشکل دن آتا تھا، تو وہ مجھے صابر اور ثابت قدم رہنے کا حوصلہ دیتے اور خدا پر بھروسہ کرنے کی نصیحت کرتے۔

امتحانی نتائج کا اعلان ہوا۔ میں اچھے گریڈز حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی۔ اس کا جشن نہ تو گھر میں اور نہ ہی اسکول میں منایا گیا، مگر جس صورتحال سے میں گزر رہی تھی، اس حساب سے میں اسے ایک بڑی کامیابی تصور کر رہی تھی۔

سماجی حلقوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی ناامیدی و مایوسی کے باوجود مجھے احساس ہوا کہ اگر میں خود میں امید پیدا نہیں کروں گی، تو میری بہن کی ہمت کون بندھائے گا؟ مجھے ان کی تیمارداری اور اپنے خوابوں کو پانے کی دوڑ میں توازن برقرار رکھنا تھا۔

چونکہ میری بہن کو صبح کے اوقات میں میری سب سے زیادہ ضرورت ہوتی تھی، لہٰذا میں نے ایک لاء کالج کی شام کی کلاسز میں داخلہ لے لیا تھا۔ میں خود پر کافی نازاں اور شاداں تھی؛ مجھے ایک معتبر ادارے میں داخلہ مل گیا تھا اور لگنے لگا تھا کہ میں اب وکیل بن ہی جاؤں گی۔ میری بہن نے بھی اپنا ٹائم ٹیبل میری کلاسز کے مطابق تبدیل کر لیا تھا جس میں نہانے اور سونے کا شیڈول بھی شامل تھا۔

جانیے: چُوسنی اور معذوروں کا کوٹہ

جب بات دوستوں سے میل جول کی آئی تو میں نے بھی ایک بہتر حکمت عملی سے کام لینا شروع کردیا۔ سنڈریلا کے شیڈول جیسا ہی طریقہ میں نے بھی اپنا لیا تھا؛ میں صرف تب ہی باہر نکلتی جس وقت مجھے پورا یقین ہو جاتا تھا کہ میری بہن کو میری ضرورت نہیں پڑے گی۔

ابتدائی طور پر تو یہ طریقہ کار آمد محسوس ہوا مگر میں اس طریقے کو جاری نہیں رکھ سکی۔ میرے لیے دوستوں کے درمیان خوش رہنا مشکل ہو رہا تھا کیونکہ اندر سے مجھے اپنی بہن کی ہی فکر رہتی۔

میں جب بھی جہاں بھی جاتی، تو میرے دماغ میں ایسے ہی سوالات اٹھتے کہ:

میری غیر موجودگی میں وہ اپنا خیال کیسے رکھ پائے گی؟ کیا ضرورت کے وقت بلڈ پریشر کی مریضہ میری والدہ ان کی مدد کر پائیں گی؟ اگر وہیل چیئر پر بیٹھتے وقت وہ گر گئیں تو؟ اگر ان کی وہیل چیئر کہیں پھنس گئی تو؟

میں نے قانون کی تعلیم مکمل تو کر لی، لیکن قانون کو بحیثیت کریئر اپنانے کے خواب سے دستبردار ہونا پڑا۔ جب میں اپنے دوستوں کو اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے کوشاں دیکھتی تو خود پر ترس آنے لگتا تھا۔ مگر بہرحال یہ احساس بھی جلد ختم ہو گیا۔ میں نے خود کو اپنی بہن کا خیال رکھنے کے لیے کمربستہ کیا اور ایسے خوابوں کا تعاقب شروع کیا جو کہ میرے ایسے حالات میں میرے لیے ممکن تھے جبکہ دیگر خوابوں کو ترک کر دیا۔

میں نے فری لانسنگ، تدریس اور فلاحی کاموں جیسی عارضی ملازمتیں کرنا شروع کیں۔ اس طرح مجھے اپنی بہن کی ضروریات کا خیال رکھنے کے لیے بہت سارا وقت مل جاتا تھا، جو کہ سالہا سال تک تقریباً ویسی ہی رہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ان کے اعصاب ٹھیک ہونے لگے تھے اور وہ تھوڑی حد تک خود سے کچھ کام کرنے لگی تھیں۔

اپنی بہن کی زندگی میں آنے والی بہتری کو دیکھنا ہی میرے لیے سب سے بہترین تحفہ ہے۔ سالہاسال کی نگہداشت کے بعد اب وہ اپنے کام کم سے کم مدد کے ساتھ کر لیتی ہیں۔ وہ اب کھڑی ہو پاتی ہیں اور کچھ مشینی پرزوں کی مدد سے تھوڑی سی چہل قدمی کر پاتی ہیں۔

مگر جو چیز مجھے اپنی بہن پر سب سے زیادہ فخرمند بناتی ہے وہ ہے ان کی ملازمت۔ ایسا معاشرہ جو معذور افراد کے لیے بالکل بھی دوستانہ نہیں، وہاں رہنے کے باوجود وہ ایک معتبر ادارے کے ہیومن ریسورس ڈپارٹمنٹ میں کام کر رہی ہیں۔

جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں اب زیادہ مضبوط، زیادہ صابر اور زیادہ مثبت ہو چکی ہوں۔ اپنی بہن کا خیال رکھنا ہی میرا سب سے زیادہ حقیقی امتحان تھا۔

اس مشکل وقت نے مجھے ان سے اپنا تعلق مزید بہتر طور پر جوڑنے میں مدد کی۔ وہ حادثہ ہم دونوں کو اتنا قریب لے آیا کہ اب ہمارے علیحدہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ماضی میں اپنی زندگیوں کے سیاہ باب کو یاد کرتے ہوئے آج ہم ہنسی مذاق کر سکتے ہیں، شکر ہے کہ ہم بہتری کی جانب گامزن ہیں۔

اس سب سے ہم نے یہ سیکھا ہے کہ زندگی اتنی آسان نہیں ہوتی، بعض اوقات زندگی میں ایسے امتحانوں کا بھی مقابلہ کرنا پڑتا ہے جن کی آپ کو توقع بھی نہیں ہوتی۔

مگر ہمارے شعور کا ایسے چیلنجز سے ہی گہرا تعلق ہے اور ان سے نمٹنے کا بہترین طریقہ ثابت قدم ہو کر ان کا مقابلہ کرنا ہے۔ اور اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ خود میں یقین پیدا کریں اور صابر رہیں، اور میری بہن کے بغیر میں یہ سب کچھ نہ کر پاتی۔

ماریہ شاہ

ماریہ شاہ ماہر تعلیم اور سماجی کارکن ہیں۔ وہ مطالعے کا شوق رکھتی ہیں، لکھاری ہیں اس وقت ایک ریسرچ آرٹیکل پر کام کر رہی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔