پاکستان

متنازع سائبر کرائم بل 50 ترامیم کے ساتھ سینیٹ سے منظور

بل کو دوبارہ قومی اسمبلی بھیجا جائے گا، جہاں سے منظوری ملتے ہی صدر کے دستخط کے بعد یہ باقاعدہ قانون بن جائے گا۔
|

اسلام آباد: سینیٹ نے متنازع سائبر کرائم بل 2015 اپوزیشن کی 50 ترامیم کے ساتھ متفقہ طور پر منظور کرلیا۔

وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمٰن نے سینیٹ میں بل پیش کیا، جس پر اپوزیشن نے اعتراضات کا اظہار کیا تاہم بعدازاں ان اعتراضات کو دور کرلیا گیا اور 50 ترامیم کے ساتھ بل منظور ہوگیا۔

بل میں ہونے والی چند ترامیم یہ ہیں:

اس سے قبل رواں ہفتے 26 جولائی کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کمیٹی نے متنازع سائبر کرائم بل 2015 متفقہ طور پر منظور کیا تھا، جس کے متن کے مطابق:

یہ بھی پڑھیں:متنازع سائبر کرائم بل سینیٹ کی کمیٹی سے منظور

سینیٹ کمیٹی سے منظور ہونے والے مذکورہ بل کو سینیٹ میں پیش کیا گیا، جہاں اپوزیشن کی 50 ترامیم کے ساتھ متفقہ طور پر منظوری کے بعد اسے دوبارہ قومی اسمبلی بھیجا جائے گا اور پھر وہاں سے بھی اگر یہی بل منظور ہوتا ہے تو اسے صدر مملکت کے پاس بھیج دیا جائے گا، جن کے دستخط کے بعد یہ باقاعدہ قانون کی شکل میں نافذ ہوجائے گا۔

یاد رہے کہ الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے بل برائے 2015 کا مسودہ آئی ٹی کی وزارت نے جون 2015 میں قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔

بعدازاں رواں برس 14 اپریل کو قومی اسمبلی نے مذکورہ بل منظور کیا، تاہم بل کو قانونی شکل دینے کے لیے سینیٹ سے اس کی منظوری ضروری تھی۔

مزید پڑھیں:قومی اسمبلی میں 'متنازع' سائبر کرائم بل منظور

تاہم یاد رہے کہ اس بل کی منظوری انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) انڈسٹری اور سول سوسائٹی کی مخالفت اور اس پر تحفظات کو دور کیے بغیر دی گئی تھی۔

بل کے مخالفین کا کہنا تھا کہ مذکورہ قانون انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بے جا اختیارات دینے کے مترادف ہے۔

آئی ٹی انڈسٹری کے نمائندوں نے زور دیا تھا کہ مذکورہ بل ان کی تجارت کے لیے نقصان کا باعث ہے۔

یہ بھی پڑھیں:متنازع سائبر کرائم بل منظور

جس کے بعد اپوزیشن اراکین کی مخالفت اور آئی ٹی انڈسٹری کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے اسے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کو بھیج دیا گیا تھا، جہاں 26 جولائی کو اس کی منظوری دی گئی۔

سائبر کرائم بل کیا ہے؟

انسداد الیکٹرانک کرائم بل میں کمپیوٹر اورانٹرنیٹ کے ذریعے کیے جانے والے جرائم کی روک تھام پرسزاؤں کا تعین کیا گیا، جس کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیو نیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اسلامی اقدار، قومی تشخص، ملکی سیکیورٹی اور دفاع کے خلاف مواد بند کرنے کی پابند ہوگی۔

سائبر کرائم کی ایک عام تعریف یہ بیان کی جاتی ہے کہ ہر ایسی سرگرمی جس میں کمپیوٹرز یا نیٹ ورکس کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کسی کو ہدف بنایا جائے یا مجرمانہ سرگرمیاں کی جائیں یا انہیں مخصوص فریقین کی جانب سے خلاف قانون سمجھا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: سائبر کرائم بل آزادی پر خطرناک حملہ کیوں ہے؟

عام فہم انداز میں بات کی جائے تو مختلف سطحوں پر سائبر کرائمز میں لوگوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی، ہیکنگ، سوشل نیٹ ورکس میں استحصال، معلومات انفراسٹرکچر پر سائبر حملے، سائبر دہشتگردی، مجرمانہ رسائی، فحش پیغامات، ای میلز، دھمکی آمیز پیغامات و ای میلز، ڈیٹا تک غیرقانونی رسائی وغیرہ شامل ہیں۔

پاکستان میں سائبر کرائمز کی روک تھام کے حوالے سے الیکٹرونک ٹرانزیکشن آرڈنینس 2002 اور پاکستانی ٹیلی کمیونیکشن ری آرگنائزیشن ایکٹ 1996 جیسے قوانین نافذ ہیں، جبکہ 2009 میں پریوینٹیشن آف الیکٹرونک کرائمز آرڈنینس بھی سامنا آیا مگر یہ ابھی تک فعال نہیں ہو سکے ہیں۔

سائبر کرائم : آپ کو کیا معلوم ہونا چاہیے

ان قوانین کے تحت ہیکنگ، غیر قانونی رسائی (کسی ای میل اکاﺅنٹ کی ہیکنگ)، مداخلت، پرائیویسی کی خلاف ورزی، الیکٹرونک و ٹیلی کام انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچانے اور گرے ٹریفک سمیت دیگر کو اہم جرائم قرار دیا گیا ہے، تاہم ان میں کئی اہم سائبر کرائمز کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔