صحافی اور مکینک میں فرق
پچھلی چند دہائیوں میں تقریباً دنیا بھر میں ہی میڈیا نے بڑی تیزی کے ساتھ وسعت پائی ہے۔ البتہ پاکستان میڈیا کے میدان میں اکیسویں صدی کے آغاز سے ترقی کی جانب گامزن ہوا جب روشن خیال اور اعتدال پسندانہ سوچ کو عام کرنے کے ساتھ ساتھ میڈیا کو بھی آزادیء اظہار کے نام پر بھرپور طریقے سے پھلنے اور پھولنے کا موقع دیا گیا اور یہاں تک کے میڈیا کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اسے ریاست کے چوتھے ستون کا بھی درجہ دے دیا گیا۔
اس میں تو کوئی دو رائے نہیں ہے کہ میڈیا کو ہر لحاظ سے آزاد ہونا چاہیے پر اسکا ہرگز یہ مطلب بھی نہیں کہ میڈیا اصول و قوانین کے ضابطوں سے عاری ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں میڈیا کے قوانین و ضوابط کا جامع نفاذ نظر نہیں آتا، البتہ آئے دن ان کی خلاف ورزی کی مثالیں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ جن میں لائیو ٹی وی شوز میں بلا ثبوت الزام تراشیاں، پلانٹڈ انٹرویوز کا انعقاد، حقیقی مسائل میں کرائے کے ایکٹرز کا استعمال، الیکشن کے غیر حتمی نتائج کے اعلانات، کورٹ میں جاری کیسز پر بحث و مباحثہ سر فہرست ہیں۔ البتہ اب ہم نے رمضان کے مقدس مہینے کو بھی نہیں بخشا اور اس بار تو ہمیں رویت ہلال کمیٹی کے اعلان سے قبل ہی چاند دیکھنے کی شہادتیں موصول کروا دی گئیں تھیں۔
پڑھیے: جعلی رانی مکھرجی اور بیوقوف پاکستانی میڈیا
یہی نہیں بلکہ مہمانوں کے درمیان ناشائستہ گفتگو اور نازیبا لفظوں کا تبادلہ ہمارے لائیو ٹاک شوز کا معمول بن چکا ہے۔ تمام تو نہیں لیکن اکثر میزبانوں کی جانب سے پروگرام کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے اس حربے کا استعمال ایک عام سی بات ہو چکی ہے۔ بعض اوقات مہمان حضرات لڑائی کا ارادہ نہ بھی رکھتے ہوں تو میزبان ہی کوئی ایسا متنازعہ نکتہ زیر بحث لے آتا ہے جس کے باعث مہمان اور میزبان آپس میں گتھم گتھا نظر آتے ہیں۔
ہمارا میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا بیشتر اوقات میڈیا کے قوانین و ضوابط کے بنیادی اصولوں کی پاسداری کرتا دکھائی نہیں دیتا جن میں غیر جانبداری اور سچائی سرفہرست ہیں۔
میڈیا ہی سے تعلق رکھنے والا ایک گروہ میڈیا میں کام کرنے والے افراد کے اس طرح کے غیر پیشہ ورانہ رویے کی نہ صرف مذمت کرتا ہے بلکہ انہیں شدید تنقید کا بھہ نشانہ بناتا ہے۔ جب کبھی اس طرح کی مثالیں منظر عام پر آتی ہیں تو اس گروہ سے وابستہ اینکرپرسن اپنے پروگرامز میں میڈیا کی اخلاقی اقدار کے موضوعات پر بحث و مباحثہ بھی کرتے ہیں۔
مگر بحث و مباحثہ میڈیا کے ضابطہ اور اخلاقیات کی خلاف ورزی کی روک تھام کے لیے ناکافی ہے۔ چند دن میں ہی بحث و مباحثے کے اثرات مدھم پڑ جاتے ہیں اور خلاف ورزی کی نئی مثال نمودار ہو جاتی ہیں۔
میڈیا کے بنیادی اصولوں اور ضوابط کے مکمل نفاذ میں ناکامی کو اکثر میڈیا ریٹنگز سے جوڑا جاتا ہے۔ مگر درحقیت اصولوں کی خلاف ورزی کی یہ واحد وجہ نہیں اکثر و بیشتر صحافی حضرات کے پاس صحافت کی پروفیشنل ڈگری نہیں ہے یا پھر ان کا تعلق دوسرے شعبہ جات سے ہے۔
مزید پڑھیے: 'فوٹو شاپ' اردو میڈیا بمقابلہ حبیب یونیورسٹی
بدقسمتی سے ہمارے یہاں جو مشہور و معروف صحافی بن کر بیٹھے ہیں ان میں سے کوئی ڈاکٹر ہے تو کوئی انجینئر، یہاں تک کہ فلم بنانے والے بھی خود کو صحافی کہلانے لگے ہیں، حالانکہ یہ حضرات خود کو جس فیلڈ کے بے تاج بادشاہ کہلوانا چاہتے ہیں وہ ان کی خود کی فیلڈ سے کہیں زیادہ ٹیکنیکل ہے۔
اب ظاہر ہے جب غیر متعلقہ تعلیم یافتہ افراد انتہائی ٹیکنیکل شعبے کو جوائن کریں گے تو ایسے غیر پیشہ ورانہ رویوں کا مظاہرہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ مشہور و معروف صحافی بھی اس نکتے کو اٹھانے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر فیلڈ کو ایک معیاری مقام تک پہنچنے میں وقت درکار ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا جب ایک شخص حکیم کی دکان پر کام کر کے خود حکیم بن جایا کرتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ میڈیکل سائنس ترقی پاتی گئی اور لوگوں نے بھی حکیموں سے زیادہ ڈاکٹرز پر اعتماد کرنا شروع کر دیا۔ نتیجتاً حکیموں اور اتائی ڈاکٹرز کو اپنی دکانیں بند کرنا پڑ گئیں۔
اب تو کوئی حکیم بھی حکمت کی ڈگری حاصل کیے بغیر اپنی کلنک نہیں کھول سکتا۔ یہ مثال صرف حکمت کے شعبے تک محدود نہیں بلکہ تمام تر شعبہ جات بشمول انجینئرنگ، قانون، انفارمیشن ٹیکنالوجی و دیگر پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے میڈیا کا شعبہ اس پابندی سے مستشنیٰ دکھائی دیتا ہے۔
اگرچہ اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان میں میڈیا اپنی ارتقائی منازل طے کرنے میں گامزن ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس شعبے کو ملک کا صحیح معنوں میں چوتھا اور مضبوط ستون بننے میں کتنا وقت لگے گا؟
پڑھیے: میڈیا، ریاست، اخلاقیات اور مفادات
آج کل ماس کمیونیکیشن، میڈیا اسٹڈیز یا جرنلزم ایک پروفیشنل ڈگری کی حیثیت حاصل کر چکا ہے اور پاکستان کی تقریباً تمام تر جامعات میں اس مضمون میں بیچلرز اور ماسٹرز پروگرامز کروائے جا رہے ہیں۔ ستم ظریفی ہے کی اس مضمون کی ڈگری عام لوگوں میں تو مقبول ہے لیکن صحافت کی دنیا میں اب تک قبولیت کا درجہ حاصل نہیں کر پائی۔
Media Laws & Ethics یا میڈیا کے قوانین اور اخلاقیات کے موضوع پر ایک سیمینار کے دوران میں نے مہمانِ خصوصی سے ایک سوال پوچھا کہ ہم میڈیا میں آئے دن یہ جو Media Laws & Ethics کی دھجیاں بکھرتی دیکھتے ہیں، کہیں اس کی وجہ میڈیا میں صحافت کی پروفیشنل ڈگری رکھنے والے افراد کی کمی تو نہیں؟
اس سے پہلے کے مہمانِ خصوصی صاحب کچھ فرماتے، ایک معروف صحافی جو کہ میرے برابر میں تشریف فرما تھے اپنی جگہ سے ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور محفل کے تقدس کا بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے بیچ میں بول پڑے۔
مجھے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ ''برخوردار تم کیا جانو صحافت کی الف ب، یہ تو ہے ہی استاد شاگردی کا کھیل اس میں ڈگری وگری کیا حیثیت رکھتی ہے''۔
اس وقت اس صحافی نے نہ صرف جرنلزم کی ڈگری کو بیکار ثابت کرنے کوشش کی بلکہ دکان پر کام کرنے والے ایک مکینک اور میڈیا ادارے میں کام کرنے والے صحافی کے درمیان فرق کو بھی مٹا دیا۔ یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں صحافت کی دنیا سے اسی ذہنیت کا خاتمہ کرنا ہے ۔
ماس کمیونیکیشن کے طلباء جنہیں میڈیا کے قوانین و ضوابط اور ان پر عمل کرنے کے طریقے ان کے چار سالہ پروگرام میں لازمی مضمون کے طور پر پڑھائے جاتے ہیں، وہ بہتر طور پر نہ صرف خود Media Laws & Ethics پر عمل کرسکتے ہیں بلکہ میڈیا کو صحیح معنوں میں ریاست کا ذمہ دار ستون بنا سکتے ہیں۔
گلشاد احمد ماس کمیونیشن کی ڈگری رکھتے ہیں اور فری لانس لکھاری ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔