’اسلحہ بننا بند، زندگی مشکل‘
ایک وقت تھا کہ جب درہ آدم خیل کے مرکزی بازار میں اسلحہ فروخت کرنے کی 7ہزار دکانیں ہوا کرتی تھیں جبکہ یہاں موجود اسلحے کے چھوٹے چھوٹے کارخانوں میں یومیہ کم از کم 10 ہتھیار تیار ہوتے تھے لیکن حکومت کی سخت پالیسی اور فوجی آپریشن کے بعد ہتھیاروں کا کاروبار تیزی سے خاتمے کی جانب بڑھ رہا ہے۔
خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے 35 کلو میٹر دور آدھے گھنٹے کی مسافت پر درہ آدم خیل واقع ہے، یہ علاقہ ایک زمانے میں جرائم پیشہ افراد کا گڑھ رہ چکا ہے لیکن اب یہاں صورتحال یکسر مختلف ہوتی جا رہی ہے، پہلے پورا علاقہ اسلحے کی مارکیٹ معلوم ہوتا تھا جبکہ اب اس کے مرکزی بازار میں دکانیں برقی آلات، اشیائے ضروریہ اور دیگر سامان سے بھری نظر آتی ہیں۔
80ء کی دہائی میں افغانستان میں سویت یونین کے خلاف جنگ جاری تھی، اس وقت افغان مزاحمت کار درہ آدم خیل سے ہی ہتھیار خریدتے تھے، اس وقت یہاں ہر قسم کے ہتھیاروں کی نقل تیار کرنا ایک عام سی بات تھی، جس کے لیے یہاں کاریگروں کی ایک کھیپ موجود تھی جو کئی نسلوں سے ہتھیار تیار کرنے کی ماہر تھی۔
افغان جنگ کے بعد یہ علاقہ منشیات کے اسمگلروں، چوری کی کاروں کی خرید وفروخت کرنے والوں اور پھر یونیورسٹیوں کی جعلی ڈگریاں بنانے کا گڑھ بھی بننا شروع ہوا۔
افغانستان کے ساتھ سرحد پر واقع ہونے کی وجہ سے طالبان کے لیے اس علاقے میں آنا اور یہاں سے واپس جانا کوئی مسئلہ نہ تھا، 2009 میں وہ اس علاقے کو اپنا مضبوط گڑھ بھی بنا چکے تھے اور یہاں پولینڈ کےانجینیئر پویٹر ستنزک کا قتل بھی انہوں نے ہی کیا تھا۔
اب درہ آدم خیل پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے کنٹرول میں ہے، یہاں سے عسکریت پسندوں کا خاتمہ کیا جا چکا ہے جبکہ اس علاقے کے داخلی اور خارجی راستوں پر چوکیاں بنائی جا چکی ہیں۔
کئی دہائیوں سے اسلحے کی تیاری اور فروخت کے کاروبار سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ بازار کی سیکیورٹی تو بہت بہتر ہو گئی ہے لیکن سیکیورٹی اداروں کے جوان کسی بھی قسم کے غیر قانونی ہتھیاروں کے حوالے سے نرمی نہیں دکھاتے، یہاں تو ہتھیاروں کے کاروبار کی وجہ سے ہی لوگ گزر بسر کرتے تھے۔