برطانوی خاتون کو پاکستان میں 'غیرت' کے نام پر قتل کرنے کا دعوٰی
اسلام آباد: برطانوی رکن پارلیمنٹ ناز شاہ نے پنجاب کے ایک گاؤں میں مبینہ طور پر غیرت کے نام پر قتل کی گئی برطانوی خاتون کے کیس کی تحقیقات کے لیے وزیراعظم نواز شریف کو خط لکھ دیا۔
دی گارجین کی ایک رپورٹ کے مطابق سید مختار کاظم نامی شخص نے دعویٰ کیا کہ ان کی اہلیہ کو والدین کی مرضی کے بغیر شادی کرنے کی بناء پر پاکستان میں 'غیرت' کے نام پر قتل کردیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق بریڈ فورڈ سے تعلق رکھنے والی پاکستانی نژاد 28 سالہ بیوٹی تھراپسٹ سامعہ شاہد پنجاب کے ضلع جہلم میں واقع گاؤں پندوری میں اپنے رشتے داروں سے ملاقات کے لیے آئی تھیں، جہاں وہ وفات پاگئیں ، جس کی تصدیق دفتر خارجہ کی جانب سے کی گئی۔
واقعے کے بعد برطانوی رکن پارلیمنٹ ناز شاہ نے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا کہ سامعہ کی قبرکشائی کرکے ان کا غیر جانبدار پوسٹ مارٹم کروایا جائے۔
ناز شاہ نے اس حوالے سے وزیراعظم نواز شریف کو لکھے گئے خط میں کہا کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کریں جو کہ 'غیرت' کے نام پر قتل کا ایک کیس ہے اور ہمیں بتایا جائے کہ سامعہ کے ساتھ انصاف ہوا اور اس بات کی بھی یقین دہانی کروائی جائے کہ اس طرح کے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔
گارجین کے مطابق مذکورہ کیس کی تفتیش کرنے والے پاکستانی پولیس اہلکاروں کا کہنا ہے کہ سامعہ کے جسم کے نمونے لاہور میں واقع ملک کی مشہور فرانزک لیبارٹری میں بھیجے جاچکے ہیں۔
ضلع جہلم کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) محمد عقیل عباس نے بتایا کہ سامعہ کی وفات کے فوری بعد ان کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا، جس کے بعد انھیں ان کے گاؤں کے قبرستان میں دفن کردیا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ سامعہ کے جسم پر کسی قسم کے زخم یا تشدد کے نشانات موجود نہیں تھے۔
شوہر کا دعویٰ
سامعہ کے شوہر سید مختار کاظم نے دعویٰ کیا کہ ان کی اہلیہ سامعہ کو یہ کہہ کر پاکستان بلوایا گیا تھا کہ ان کی کسی رشتے دار خاتون کا انتقال ہوگیا ہے، جس کے بعد وہ رواں ماہ 14 جولائی کو اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئیں۔
مختار کے مطابق بعدازاں انھیں فون پر بتایا گیا کہ ان کی اہلیہ کو دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ انھیں یہ خبر گذشتہ ہفتے دبئی میں ملی، جہاں وہ سامعہ کے ساتھ رہتے تھے۔
گارجین کے مطابق سامعہ کے خاندان سے قریب ایک ذرائع نے بتایا کہ انھیں دمے کا اٹیک ہوا تھا، جس کے بعد وہ انتقال کر گئیں۔
سامعہ کے شوہر مختار کاظم نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ان کی اہلیہ کو ان کے خاندان والوں نے قتل کیا، کیونکہ 'غیر خاندان ' کا ہونے کی بناء پر سامعہ کے اہلخانہ نے انھیں بڑی مشکل سے قبول کیا تھا۔
مختار کاظم کا کہنا تھا کہ ستمبر 2014 میں لیڈز ٹاؤن ہال میں ان سے شادی سے قبل سامعہ نے اپنے پہلے شوہر سے علیحدگی اختیار کرلی تھی، جو ان کا فرسٹ کزن اور پاکستان میں رہائش پذیر تھا۔
والد کی تردید
دوسری جانب سامعہ کے اہلخانہ نے مختار کاظم کے دعووں کو سختی سے مسترد کرتے کردیا۔
پاکستان میں موجود ان کے والد محمد شاہد نے کہا کہ کاظم کی جانب سے ان پر 'جھوٹے اور بے بنیاد' الزامات لگائے جارہے ہیں۔
ان کا کہا تھا کہ اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں اور اگر میں قصوروار پایا گیا تو میں ہر قسم کی سزا کے لیے تیار ہوں'۔
والد کا کہنا تھا کہ 'ان کی بیٹی ایک خوشگوار زنگی بسر کر رہی تھی، جو خود سے پاکستان آئی اور اس پر خاندان کی جانب سے کسی قسم کا دباؤ نہیں تھا'۔
بریڈ فورڈ میں مقیم سامعہ کے ایک کزن محمد علی نے کہا کہ سامعہ کی موت قدرتی تھی، ان کا کہنا تھا کہ 'اہلخانہ نے پوسٹ مارٹم کروایا اور قتل کے حوالے سے کوئی شواہد نہیں ہیں'۔
محمد علی نے مختار کاظم کے سامعہ کے شوہر ہونے کے دعوے کو بھی مسترد کرتے ہوئے انھیں خاتون کا نام نہاد شوہر قرار دیا۔
گارجین کے مطابق پاکستانی پولیس کے پاس سامعہ کے والد کی جانب سے جمع کروائے گئے ایک گواہ کے بیان میں انھوں نے اپنی بیٹی کا شوہر مختار کاظم کے بجائے محمد شکیل کو قرار دیا، جو سامعہ کا کزن ہے۔
دوسری جانب گارجین کو دستیاب سامعہ اور مختار کاظم کے برطانوی میرج سرٹیفکیٹ میں ان کی شادی کی تاریخ 24 ستمبر 2014 درج ہے۔
ویسٹ یارک شائر پولیس کے ایک ترجمان نے بھی تصدیق کی کہ وہ سامعہ کی موت سے باخبر ہیں اور دفتر خارجہ اور پاکستانی حکام سے رابطے میں ہیں۔
نوٹ: ابتداء میں اس رپورٹ میں پندوری گاؤں کو جنوبی پنجاب کا حصہ بتایا گیا تھا، جسے اب درست کرلیا گیاہے، اس غلطی پر ہم قارئین سے معذرت خواہ ہیں۔