دنیا

ترکی میں فوجیوں، ججز کے بعد صحافی بھی نشانے پر

قانونی کریک ڈاؤن کے نئے مرحلے میں 40 سے زائد صحافیوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے گئے۔

انقرہ: ترک انتظامیہ نے فوجی بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد ملک بھر میں قانونی کریک ڈاؤن کے نئے مرحلے میں 40 سے زائد صحافیوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق ترکی میں 15 جولائی کو بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد بڑے کریک ڈاؤن میں مختلف شعبوں اور اداروں سے تعلق رکھنے والے 13 ہزار سے زائد افراد کو اب تک گرفتار کیا جاچکا ہے۔

ترک صدر و حکومت نے بغاوت کا الزام امریکا میں مقیم اسلامی مبلغ فتح اللہ گلن پر عائد کیا تھا۔

ترکی کی سرکاری نیوز ایجنسی ’اناتولو‘ کی رپورٹ کے مطابق استنبول کو انسداد دہشت گردی پراسیکیوٹرز نے، بغاوت کی تحقیقات کے لیے 42 صحافیوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔

یہ بھی پڑھیں: ترکی میں ناکام فوجی بغاوت

رپورٹ میں کہا گیا کہ جن صحافیوں کے وارنٹ جاری کیے گئے ان میں معروف صحافی نازلی الکاک بھی شامل ہیں، جنہیں حکومت کے حامی روزنامہ صباہ سے 2013 میں، کرپشن اسکینڈل میں شامل وزرا پر تنقید کرنے پر نکالا گیا تھا۔

حکومت نے 2013 کے کرپشن اسکینڈل کا الزام بھی فتح اللہ گلن پر عائد کیا تھا، جبکہ چند حکومتی عہدیداران نے تو اسے صدر رجب طیب اردگان کو عہدے سے ہٹانے کی سازش بھی قرار دیا تھا۔

رجب طیب اردگان کی حکومت پر پہلے ہی ملک میں آزادی صحافت کو محدود پر تنقید کی جاتی ہے۔

مزید پڑھیں: ترکی: ہزاروں نجی اسکولوں اور اداروں کو بند کرنے کا حکم

ملٹری اکیڈمی میں کارروائی

اناتولو نیوز ایجنسی کے مطابق پیر کے روز تازہ کارروائیوں میں پولیس نے، استنبول کی ملٹری اکیڈمی میں ریڈ کرتے ہوئے ناکام بغاوت میں کردار ادا کرنے کے شبے میں 40 مشتبہ فوجی اہلکاروں کو گرفتار کرلیا۔

ترک نیوز ایجنسی ’دوگان‘ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ریڈ کی دوران گرفتار کی گئیں خاتون فائٹر پائلٹ کریم کُماس نے اعتراف کیا کہ انہوں نے بغاوت کی رات، باغی فوجی اہلکاروں کے ہمراہ بیسکتاس فٹبال اسٹیڈیم میں ہیلی کاپٹر اتارا، تاہم انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ بغاوت کا حصہ بن رہی ہیں۔

لندن میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے پاس اس بات کا ’پختہ ثبوت‘ ہے کہ بغاوت کے بعد گرفتار کیے گئے افراد پر تشدد کیا جارہا ہے، تاہم ترک حکام نے ان الزامات کو یکسر مسترد کیا۔

ترکش ایئرلائن کے ملازمین فارغ

دوسری جانب ترکی کی سرکاری ترکش ایئرلائن نے، فتح اللہ گلن کی مذہبی تحریک سے تعلق کے شبے میں 211 ملازمین کو فارغ کردیا۔

اپنے بیان میں ایئرلائن نے کہا کہ فارغ کیے گئے ملازمین کے کنٹریکٹ، خراب کارکردگی، آپریشنل ضرورت، نااہلی اور فتح اللہ گلن کی تحریک کی حمایت کے باعث منسوخ کیے گئے۔

ترکی میں 15 جولائی کی رات فوج کے باغی گروپ کی جانب سے ملک میں بغاوت کی کوشش کے دوران جھڑپوں میں 240 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

رجب طیب اردگان نے بغاوت کی ناکام کوشش کا الزام فتح اللہ گلن پر عائد کیا تھا، تاہم فتح اللہ گلن نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔

رجب طیب اردگان نے گزشتہ ہفتے فوجی بغاوت کی ناکام کوشش میں ملوث ’دہشت گرد گروپ‘ کے خلاف کارروائی کا عزم ظاہر کرتے ہوئے دو روز قبل ترکی میں 3 ماہ کے لیے ایمرجنسی نافذ کردی تھی۔

یہ پڑھیں: ترکی میں تین ماہ کیلئے ایمرجنسی نافذ

ایمرجنسی کے نفاذ سے ترک صدر اور ان کی حکومت کو یہ حق حاصل ہوگیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر نئی قانون سازی کرسکتے ہیں۔

تاہم ان حکم ناموں کی پارلیمنٹ سے منظوری لازم ہے، لیکن اس کے لیے سادہ اکثریت کی ضرورت ہے جو حکومت کو حاصل ہے۔