نقطہ نظر

ہماری آنکھیں ہم سے مت چھینیں

کیا ریاست کو تشدد کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے پھر چاہے وہ زندگی بھر کے لیے کسی کو اندھا کر دے؟

کشمیر کی التجا: ہماری آنکھیں ہم سے مت چھینیں

ماہم شبیر

ایک کشمیری لڑکی اپنے گھر کی ایک کھڑکی سے باہر جھانک رہی ہے — اے ایف پی

کشمیر میں یہ ایک اور صبح ہے۔ بادل روشن نیلے آسمان پر تیر رہے ہیں۔ گلیاں میدان جنگ بنی ہوئی ہیں۔

8 جولائی کو حزب المجاہدین کمانڈر برہان وانی کے سیکورٹی فورسز کی جانب سے قتل کے پیش نظر کشمیریوں نے اپنی روزمرہ کی زندگی معطل کردی اور تمام اسکول، دفتر اور دکانیں بند رہیں۔

میری والدہ نے مجھے عید الفطر کے دوسرے دن شام کو ایک انکاؤنٹر میں برہان وانی کی موت واقع ہونے کا بتایا۔ باہر شاندار آتشبازی کا مظاہرہ جاری تھا۔ شاید ان کی موت کی خبر ابھی تک تمام لوگوں تک نہیں پہنچی تھی۔

ہم نے جیسے ہی 9 بجے کا خبرنامہ دیکھا تو تمام چیلنز پر وانی کی لاش کی تصاویر دکھائی جا رہی تھیں۔ وہ ٹی شرٹ میں ملبوس اسٹیل کے اسٹریچر پر پڑے تھے۔ ٹی وی کیمروں نے ان کے چہرے کو نزدیک سے دکھایا، ان کی آنکھیں اور منہ تھوڑے سے کھلے تھے ان کے دانتوں پر خون بکھرا ہوا تھا۔

مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی ہندوستانی فوج کے کسی فوجی کی لاش اس طرح کبھی عوام کے سامنے پیش کی گئی ہو۔ ہلاک فوجی کے لیے لازماً پاسپورٹ سائز تصویر استعمال کی جاتی ہیں، کچھ بھگت سنگھ کی تصویر کی ہی طرح جنہیں میں نے اپنی چھٹی جماعت کی ایک نصابی کتاب میں ہَیٹ پہنے دیکھا تھا۔ اس سے قبل کہ ہم اپنی جدوجہد کے بارے میں پڑھتے، میری طرح کے کئی کشمیریوں کو سوراج — یعنی برطانیہ سے خودارادیت کی جدوجہد کے بارے میں پڑھایا گیا تھا۔

مگر پھر میں یہ سوچتی ہوں کہ نہ ہی وہ لوگ جو ٹی وی پر بحث و مباحثوں میں مصروف ہیں اور نہ وہ لوگ جو ٹی وی پر انہیں دیکھ رہے ہیں کبھی وانی کو بطور ایک فوجی تصور بھی کر سکیں گے، حالانکہ وہ آزادی کے لیے کھلم کھلا لڑے، اسلحہ اٹھایا، سپاہیوں جیسا لباس پہنا اور یہاں تک کہ سکیورٹی فورسز کے خلاف مسلح آپریشنز کے ضابطہ اخلاق بھی مرتب کیے۔ یوٹوب پر موجود ان کی ایک ویڈیو میں وہ بتا رہے تھے کہ کس طرح حریت پسند کبھی بھی ہندو یاتریوں کو نشانہ نہیں بناتے۔

پڑھیں: کشمیر کے ایس ایچ او مارک زکربرگ

ان مباحثوں ایک اہم نکتہ یہ مفروضہ ہے کہ تشدد، خاص طور پر جان لیوا تشدد صرف اسی صورت میں درست ہے اگر وہ ریاست یا ریاست کے نام پر کیا گیا ہو۔ اس کے علاوہ نوجوان مظاہرین کے خلاف ریاستی تشدد، چاہے کسی بھی سطح یا نوعیت کا ہو، جائز ہے۔

ان کے نزدیک پتھراؤ بھی ناجائز تشدد ہے یا ایک پولیس اہلکار کے مطابق، ''شورش انگیز دہشتگردی'' کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

تصویر کے دوسرے رخ میں وہ مقصد ہے جسے حاصل کرنے کے لیے وانی اور 150حریت پسند کمربستہ ہیں۔ چیزوں کو اس انداز سے دیکھیں تو وہ نوجوان جو پتھر پھینکتے ہیں وہ ''دیوار سے لگائے گئے'' اور ''بنیاد پرست'' ہیں جبکہ حریت پسند ''جہادی'' اور ''دہشتگرد'' ہیں۔

ہم کیا چاہتے، آزادی؟

اگلے دن — برہان وانی کے جنازے کے موقعے پر — ناشتے کا وقت تھا اور ہمارے محلے کے لڑکوں نے چوک کی جانب جانے والی سڑک کے بیچ درختوں کی شاخیں اور ملبہ رکھ دیا۔ وہ تمام ٹین ایجرز یا 20 سال سے کچھ زیادہ عمر لگ رہے تھے؛ ان میں سے ایک تو خاص طور پر اور بھی چھوٹا، شاید 10 یا 12 سال سے بھی کم عمر تھا۔

اس کی بلند آواز دور سے بھی سنائی دے رہی تھی۔ زیادہ تر لڑکوں نے اپنا چہرہ آنکھوں تک ڈھانپا ہوا تھا، دیگر نے کچھ ایسا ہی سر پوش پہنا ہوا تھا جو میں نے ابوغریب کے تشدد زدہ عراقیوں کی تصاویر میں ان کے سروں پر پہنا دیکھا تھا۔

مگر یہاں انہوں نے آنکھوں اور ناک کی جگہوں پر اس کپڑے میں سے سوراخ بنائے ہوئے تھے۔ میں یہ سوچتی ہوں کہ کشمیر کے تفتیشی مراکز میں ہونے والے جس سلوک کو انسانی حقوق کی تنظیموں نے قلمبند کیا ہے، اس کے سامنے تو ابوغریب بھی شرمسار ہو جائے گا۔

سڑک کے بیچ میں ایک تھیلا پڑا ہوا تھا جو کہ تھوڑا پھولا ہوا لگ رہا تھا۔ میرا اندازہ ہے کہ اس میں پتھر بھرے تھے۔ 10 لڑکوں کا ایک گروپ سڑک پر موجود واحد اور کاٹے جانے سے محفوظ رہے شہتوت کے درخت کے نیچے سپاٹ کیے ہوئے ڈبوں پر بیٹھا ہوا تھا۔

وہ بلند آواز میں باتیں کر رہے تھے کہ جیسے ہی مسلح افواج حرکت میں آتی ہیں تو کس طرح کچھ پڑوسی اپنی حفاظت کی خاطر دروازوں کو لاک کردیتے ہیں اور بھاگ نکلنے کے ممکنہ راستوں کو بلاک کر دیتے ہیں۔ میں نے اپنے پڑوسیوں کے پاس جانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے بھی اپنا دروازہ اندر سے بند کیا ہوا تھا۔

پڑھیں: ہندوستانی فوج کے ہاتھوں 17 کشمیری ہلاک

جموں و کمشیر پولیس کے اہلکار مین چوک کے پاس تقریباً 250 میٹر کے فاصلے پر کھڑے اپنی لاٹھیاں گھما رہے تھے۔ میں جیسے ہی اپنے پڑوسی کے گھر سے لوٹی تو پولیس نے اچانک ہی ایک آنسو گیس کا شیل فائر کیا جو تین گھر دور جا کر گرا۔ ممکن ہے انہوں نے ایسا مظاہرین کے گروہ کو منتشر کرنے کی غرض سے کیا ہو۔

ایک زوردار دھماکے کی آواز آئی اور اس کے ساتھ ہی روشنی بکھر گئی۔ ہوا میں دھواں بھر گیا تھا۔ میں نے گھبرا کر گھر کی طرف دوڑ لگائی مگر میں نے لڑکوں کے منتشر ہونے کا شور نہیں سنا۔ میں نے دیوار اور دروازے کے درمیان دراڑ سے غور سے دیکھا۔ لڑکے پولیس کی گاڑیوں کے قریب گئے اور زور سے کشمیری زبان میں چلائے ''پوندے پولیس''۔ گھٹیا پولیس۔

ان میں سے ایک جو اپنی پینٹ کے پائنچے اوپر کر رہا تھا، کہنے لگا، ''اس سے کیا ہوگا؟'' اس نے پائنچے ٹخنوں سے تھوڑا اوپر کر لیے تھے؛ اس نے چپلیں پہنی تھیں۔

اپنی ٹی شرٹ کی آستینیں چڑھاتے ہوئے اس نے ایک پتھر اٹھایا اور سڑک کی دوسری جانب بجلی کے ایک کھمبے کو زور سے مارا پھر ایک دوسرا اٹھا کر مارا پھر تیسرا مارا، جیسے اپنے عزم کو پختہ کر رہا ہو۔ کھمبے پر پتھر لگنے سے پیدا ہونے والی آواز خاموشی کو چیرتی گونج پیدا کر رہی تھی۔

پولیس نے ایک دستے کی صورت میں قریب آنا شروع کیا۔ انہوں نے سر سے پاؤں تک خود کو حفاظتی سامان سے ڈھانپا ہوا تھا: پنجرے نما جالی ہیلمٹ کے ساتھ لگی ہوئی تھی، گھٹنوں اور بازوؤں پر سیف گارڈز جبکہ سینے پر بلٹ پروف جیکٹس پہنی ہوئی تھیں۔ تمام اہلکاروں نے بندوقیں یا لاٹھیاں یا دونوں تھامے ہوئے تھے۔

میں نے منتشر ہوتے لوگوں کے قدموں کی آواز سنی، لوہے کے دروازوں کی زور سے بند ہونے کی آوازیں اور پولیس جیپوں کے سائرن کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ ایک منٹ کے اندر ہی پولیس نے لڑکوں کی جانب متعدد آنسو گیس شیل فائر کیے۔ شہتوت کے درخت کے پیچھے سے دھواں اٹھنا شروع ہوا۔

ایک لڑکے نے پولیس کو برا بھلا کہا اور پھر نعرہ تکبیر ''اللہ اکبر'' بلند کیا۔ اس کے بعد نعرہ بلند کیا ''ہم کیا چاہتے، آزادی؟'' دیگر بھی نعرے بازی میں شریک ہو گئے۔

جذباتی سوال پر مشتمل یہ نعرہ یہاں کئی احتجاجی مظاہروں میں لوگ ایک ساتھ مل کر باآواز بلند لگاتے ہیں۔ اس نعرے کو ہمیشہ ہندی میں ہی لگایا جاتا ہے کبھی کشمیری میں نہیں لگایا جاتا؛ یہ نعرہ واضح انداز میں اقتدار نشینوں سے کلام کرتا ہے۔

لڑکوں نے پتھراؤ شروع کردیا، پولیس نے مزید شیل فائر کیے۔ جلد ہی احتجاج ایک سے دوسرے محلے منتقل ہو گیا۔

پولیس کے پاس گولیوں سے بچنے کا پورا انتظام تھا جو کہ مظاہرین کے پاس موجود ہی نہیں تھیں مگر مظاہرین کے پاس پولیس کی گولیوں سے بچنے کے لیے اپنی پھرتی کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔

اس کے باوجود میں ایک لمحے کے لیے یہ بھول بیٹھی تھی کہ لڑکے وہاں کس کے خلاف تھے: جہاں دنیا کی کسی بھی جگہ کے مقابلے میں سب سے زیادہ مسلح اہلکار تعینات ہیں۔ مثالی خوبصورتی کا مالک یہ خطہء زمین دنیا کا سب سے زیادہ عسکری علاقہ ہے، جہاں ہر 15 کشمیریوں کے لیے ایک سپاہی موجود ہے۔ میں یہ سوچ کر حیران ہوتی ہوں کہ ان لڑکوں نے اپنے ڈر کو آخر کس طرح شکست دی ہوئی تھی۔

ہندوستانی پولیس اہلکار احتجاج کے دوران کشمیری مظاہرین پر چھرے فائر کر رہا ہے — اے ایف پی

جہاں تک میں جانتی ہوں، کشمیریوں کا آزادی اور حقِ خود ارادیت کا مطالبہ، اپنے سیاسی حال اور مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا مطالبہ کسی نہ کسی صورت میں ہمیشہ موجود رہا ہے۔

تو اگر کشمیریوں کے اس سیاسی مطالبے جو ریاستِ ہندوستان جتنا قدیم اور تقسیمِ ہند کے وقت کا ہے، کا انکار کردیا جائے، اور ان کی آواز دبانے کی خاطر مظالم کا سہارا لیا جائے، تو پھر کشمیری نوجوان ہندوستانی ریاست کے تشدد کا جواب مسلح ہو کر دیں تو اس میں تعجب کی بات کیا ہے؟

یوں لگتا ہے کہ ریاست صرف طاقت کی ہی زبان سمجھتی ہے اور کشمیری انہیں دکھا چکے ہیں کہ جس میز پر بیٹھ کر ان کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا، اس میز کی کرسی کی خاطر وہ اپنے ہاتھوں پیروں اور جان تک کی بازی لگا سکتے ہیں۔

'دنیا سے اوجھل کشمیر دیکھیے'

کرفیو کے تیسرے دن سویرے ایک وجرا (فوجی گاڑی) یا جسے عام طور پر ''ون ٹن'' کہا جاتا ہے، نمودار ہوتی ہے، جس پر سابقہ پتھراؤ سے بنے نشان موجود تھے اور اس پر ایک لاؤڈ اسپیکر پر نصب کیا ہوا تھا۔

پچھلے دن جس جگہ احتجاجی مظاہرے کیے گئے تھے اس گلی میں چند چکر لگانے کے بعد اندر بیٹھے پولیس اہلکاروں نے ایک طنزیہ اعلان کیا کہ ''دم ہے تو سامنے آ''

نوجوان یہ سن کر مشتعل ہوگئے اور ان پر پتھراؤ کرتے ہوئے نعرے بلند کرنے لگے۔ سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے اہلکاروں نے خود کو ون ٹن میں محفوظ رکھتے ہوئے لڑکوں پر آنسو گیس کے شیل فائر کیے اور اسلحے کا آزادانہ استعمال شروع کردیا۔

دیر شام کو جب لڑکے اور پولیس جا چکی تھی، تب میں اپنی گاڑی میں باہر نکلی۔ ٹینگ پورہ، بارہ مولہ اور میسومہ کی سڑکوں پر سینکڑوں سی آر پی ایف اور ریاستی پولیس اہلکار کھڑے تھے۔ ہوا آنسو گیس سے بھاری ہو رہی تھی۔

14سالہ انشاء ملک چھروں کی فائرنگ کی زد میں آنے کے بعد بستر پر لیٹی ہوئی ہیں— اے ایف پی

مجھے سننے میں آیا کہ ایک لڑکا ٹینگ پورہ میں قتل کیا گیا تھا، لڑکے کو مبینہ طور پر گھر سے گھسیٹتے ہوئے باہر نکال کر ایس ایچ او نے والدین کے سامنے گولی مار کر قتل کر دیا تھا کیونکہ وہ اس علاقے میں ہونے والے احتجاج کی سرپرستی کر رہا تھا۔ بعد میں موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق وہ شبیراحمد میر نامی 26 سالہ نوجوان تھا۔

میں ایک سایہ دار سڑک پر پہنچی جو لوگوں سے بھری ہوئی تھی — فیملیز چہل قدمی کر رہی تھیں، بچے اپنے والدین کے پاجاموں کو پکڑے کھڑے تھے۔ بہت سارے سیاح چہل قدمی کر رہے تھے، کچھ کے ساتھ ان کا سوٹ کیس بھی تھا۔ ٹوئرسٹ ریسپشن سینٹر کے ساتھ ایک بل بورڈ پر لکھا تھا،

''دنیا سے اوجھل کشمیر دیکھیے، توسہ میدان اب سیاحوں کے لیے کھلا ہے''

50 سالوں تک توسہ میدان ہندوستانی افواج کی آرٹلری رینج رہی۔ فوج کہتی ہے کہ اس جگہ کو سیاحت کے لیے خطرناک چیزوں سے پاک کیا جا چکا ہے۔ ممکن ہے کہ مستقبل میں توسہ میدان بھی گل مارگ یا پہلگام جیسا ہوجائے جہاں ہندوستانی موسم سرما کی گرمیوں سے بچنے کے لیے آئیں اور اس بات سے لاتعلق کہ اس میدان کے نیچے کیا کچھ ہے۔

اب آنکھیں نہیں ہوں گی

اگلے دن سویرے جب میں ایس ایم ایچ ایس ہسپتال کی طرف جارہی تھی تب راستے میں دیکھا کہ سیاحوں سے بھری ہوئی جیپیں ایئر پورٹ کی جانب رواں دواں تھیں۔ جب میں ایس ایم ایچ ایس کے دروازوں پر پہنچی تو ہسپتال میں ایمبولینسوں کے آنے جانے کا سلسلہ جاری تھا۔مقامی لوگوں کی جانب سے چلائے جانے والے کمیونٹی کچن وہاں بیمار اور زخمیوں کے گھر والوں میں چائے اور باقر خانیاں تقسیم کر رہے تھے۔

رضاکاروں نے سفید رنگ کے کوٹ پہنے ہوئے تھے جن پر نیلے رنگ میں لوگو اور تنظیم کا نام رواں خط میں سلا ہوا تھا۔ میں وہاں خون کا عطیہ دینے پہنچی تھی۔ بلڈ بینک کی جانب جاتے ہوئے ہسپتال کے ایک اسٹاف ممبر کو دوسرے اسٹاف ممبر پر چلاتے ہوئے سنا کہ ''اپنا آئی ڈی کارڈ اور اپنا ایپرن پہنے رکھو، پولیس چیک کر رہی ہے کہ کون کیا ہے۔''

بلڈ بینک پہنچنے پر مجے بتایا گیا تھا کہ ان کے پاس میرے گروپ کا خون کی کافی تعداد موجود تھی کیونکہ پچھلے دنوں میں کئی لوگ خون کا عطیہ دینے آئے تھے۔

وہاں چلتے چلتے میری ملاقات ایک انٹرن ڈاکٹر سے ہوئی جو میرے اسکول کا دوست تھا، جس کے ساتھ میں 8 نمبر وارڈ تک ساتھ گئی۔ وہ امراض چشم کا وارڈ تھا۔ وارڈ کی جانب جاتی تنگ راہداری میں کھڑے ہونے کی بھی جگہ نہیں تھی اور کنسلٹنٹس روم کے باہر بہت سارے لڑکے تھے جن کی آنکھوں پر کپڑے کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے۔ ان میں سے چند کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں؛ شاید ہسپتال کے پاس جراثیم سے پاک مرہم پٹیاں ختم ہو چکی تھیں۔

مختلف مریضوں کے ایکس ریز جن میں واضح دیکھا جا سکتا ہے کہ چھرے ان کے جسم کے اندر پیوست ہو چکے ہیں — بشکریہ فیس بک

ایک ٹین ایجر لڑکا راہداری میں بیٹھا تھا جس کی دونوں آنکھوں پر مرہم پٹی بندھی ہوئی تھی۔ اس کے چہرے پر آنسو بہہ رہے تھے، چہرے پر سوزش بھی تھی اور ہندوستانی مسلح اہل کاروں کی جانب سے چھروں کی فائرنگ سے چہرہ چھوٹے چھوٹے سوراخوں سے بھر گیا تھا۔

ڈاکٹر نے ایک ٹرالی پر ایک زخمی کی آنکھیں کھولیں؛ ان کی آنکھوں کے اندر تک گہرا زخم پہنچا تھا ۔ کئی لوگ اپنی خراش شدہ اور سیاہ شدہ آنکھیں ڈاکٹر کو دکھانے کے لیے صف بنائے کھڑے تھے۔ ان میں سے چند افراد کی آنکھیں اس قدر سوزش کا شکار تھیں کہ اندر کی طرف دھنسی محسوس ہو رہی تھیں۔ وہ تمام افراد چھروں کی فائرنگ کی وجہ سے زخمی ہوئے تھے۔

وہاں موجود ایک ماہر امراض چشم نے مجھے بتایا کہ ہسپتال میں ان چار دنوں میں 100 کے قریب نوجوانوں کو داخل کیا گیا تھا، ان کی عمریں 15 سے 25 کے بیچ میں تھیں۔ 90 افراد کا چھروں سے پہنچنے والے زخموں کا آپریشن کیا گیا تھا۔ ان کو یقین ہے کہ بہتر سرجری کے باوجود بھی زخمی ہونے والوں کی نظر ایک حد تک کم ہو جائے گی جبکہ کچھ کیسز میں مکمل طور پر آنکھوں کی بینائی چلی جائے گی۔

ایک زخمی نوجوان سے نکالا گیا ایک چھرا انہوں نے اپنے بٹوے میں رکھا ہوا تھا۔ چھرا ایک مسدسی شکل کا چھوٹا آہنی گولا تھا جس پر کئی تیز دھاریں موجود تھیں، وہ چاول کے ایک دانے سے بھی چھوٹا تھا۔

ایک اور سرجن نے بتایا کہ شوپیاں کی انشاء ملک نامی ایک 14 سالہ لڑکی تھی جس کی آنکھوں کو چھروں کی فائرنگ سے اس قدر نقصان پہنچا تھا کہ آنکھ کا اندرونی مواد بھی بہہ رہا تھا۔

انہوں نے کہا ''اب ان کی آنکھیں نہیں ہوں گی۔''

سرجن کہتے چلے گئے:

''ہم اپنی آنکھوں سے صرف دیکھتے ہی نہیں، بلکہ دنیا کے تصور، ہماری ماضی کی یادیں، مستقبل کا تصور اور اپنے آپ کو دیکھنے میں بھی ان کا بڑا اہم کردار ہے۔''

مجھے یاد ہے کہ کالج میں ایک پروفیسر نے مجھ سے پوچھا تھا کہ، ''تو، دراصل آزادی ہے کیا؟'' وہ یہ جانتے تھے کہ آزادی خود مختاری کو کہتے ہیں مگر وہ آزادی کی تعریف کسی اور انداز میں چاہتے تھے، ان کے اپنے لفظوں میں کہیں تو آزادی کی ''کچھ مزید ٹھوس تعریف''۔

جہاں تک میرا ماننا ہے، آزادی مستقبل کے بارے میں تصور کرنے کا نام ہے مگر اس میں استحصال کے ساتھ بڑے ہونے کی یادیں اور استحصال پر مبنی ماضی کو یاد رکھنا بھی شامل ہے۔

جولائی 9 سے جاری اس کرفیو میں کشمیریوں کو نہ صرف نقل و حرکت کرنے سے روکا ہوا ہے بلکہ انہیں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کا استعمال بھی نہیں کرنے دیا جا رہا۔ اخباروں پر بھی پابندیاں لگادی گئی ہیں۔

مجموعی طور پر ہمارے حال کو خاموش کروانا ہمیں ہمارے اپنے سیاسی مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کے مطالبے کی سزا ہے، چاہے پھر ہم کسی بھی طریقے سے اس مطالبے پر اواز بلند کریں۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر اسکرول ڈاٹ ان پر شایع ہوا اور بہ اجازت دوبارہ شایع کیا گیا ہے۔


ماہم شبیر جموں کشمیر کوالیشن آف سول سوسائیٹی کے ساتھ بطور قانونی محقق کام کرتی ہیں۔ وہ سری نگر میں قائم بزنس 'کرافٹڈ ان کشمیر' کی بانی ہیں، جس کا مقصد کمشیر کے صدیوں پرانے روایتی دستکاری میں پائیدار جدت پیدا کرنا ہے۔


ماہم شبیر

ماہم شبیر جموں کشمیر کوالیشن آف سول سوسائیٹی کے ساتھ بطور قانونی محقق کام کرتی ہیں۔ وہ سری نگر میں قائم بزنس 'کرافٹڈ ان کشمیر' کی بانی ہیں، جس کا مقصد کمشیر کے صدیوں پرانے روایتی دستکاری میں پائیدار جدت پیدا کرنا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔