ایک کشمیری لڑکی اپنے گھر کی ایک کھڑکی سے باہر جھانک رہی ہے — اے ایف پی
کشمیر میں یہ ایک اور صبح ہے۔ بادل روشن نیلے آسمان پر تیر رہے ہیں۔ گلیاں میدان جنگ بنی ہوئی ہیں۔
8 جولائی کو حزب المجاہدین کمانڈر برہان وانی کے سیکورٹی فورسز کی جانب سے قتل کے پیش نظر کشمیریوں نے اپنی روزمرہ کی زندگی معطل کردی اور تمام اسکول، دفتر اور دکانیں بند رہیں۔
میری والدہ نے مجھے عید الفطر کے دوسرے دن شام کو ایک انکاؤنٹر میں برہان وانی کی موت واقع ہونے کا بتایا۔ باہر شاندار آتشبازی کا مظاہرہ جاری تھا۔ شاید ان کی موت کی خبر ابھی تک تمام لوگوں تک نہیں پہنچی تھی۔
ہم نے جیسے ہی 9 بجے کا خبرنامہ دیکھا تو تمام چیلنز پر وانی کی لاش کی تصاویر دکھائی جا رہی تھیں۔ وہ ٹی شرٹ میں ملبوس اسٹیل کے اسٹریچر پر پڑے تھے۔ ٹی وی کیمروں نے ان کے چہرے کو نزدیک سے دکھایا، ان کی آنکھیں اور منہ تھوڑے سے کھلے تھے ان کے دانتوں پر خون بکھرا ہوا تھا۔
مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی ہندوستانی فوج کے کسی فوجی کی لاش اس طرح کبھی عوام کے سامنے پیش کی گئی ہو۔ ہلاک فوجی کے لیے لازماً پاسپورٹ سائز تصویر استعمال کی جاتی ہیں، کچھ بھگت سنگھ کی تصویر کی ہی طرح جنہیں میں نے اپنی چھٹی جماعت کی ایک نصابی کتاب میں ہَیٹ پہنے دیکھا تھا۔ اس سے قبل کہ ہم اپنی جدوجہد کے بارے میں پڑھتے، میری طرح کے کئی کشمیریوں کو سوراج — یعنی برطانیہ سے خودارادیت کی جدوجہد کے بارے میں پڑھایا گیا تھا۔
مگر پھر میں یہ سوچتی ہوں کہ نہ ہی وہ لوگ جو ٹی وی پر بحث و مباحثوں میں مصروف ہیں اور نہ وہ لوگ جو ٹی وی پر انہیں دیکھ رہے ہیں کبھی وانی کو بطور ایک فوجی تصور بھی کر سکیں گے، حالانکہ وہ آزادی کے لیے کھلم کھلا لڑے، اسلحہ اٹھایا، سپاہیوں جیسا لباس پہنا اور یہاں تک کہ سکیورٹی فورسز کے خلاف مسلح آپریشنز کے ضابطہ اخلاق بھی مرتب کیے۔ یوٹوب پر موجود ان کی ایک ویڈیو میں وہ بتا رہے تھے کہ کس طرح حریت پسند کبھی بھی ہندو یاتریوں کو نشانہ نہیں بناتے۔
پڑھیں: کشمیر کے ایس ایچ او مارک زکربرگ
ان مباحثوں ایک اہم نکتہ یہ مفروضہ ہے کہ تشدد، خاص طور پر جان لیوا تشدد صرف اسی صورت میں درست ہے اگر وہ ریاست یا ریاست کے نام پر کیا گیا ہو۔ اس کے علاوہ نوجوان مظاہرین کے خلاف ریاستی تشدد، چاہے کسی بھی سطح یا نوعیت کا ہو، جائز ہے۔
ان کے نزدیک پتھراؤ بھی ناجائز تشدد ہے یا ایک پولیس اہلکار کے مطابق، ''شورش انگیز دہشتگردی'' کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تصویر کے دوسرے رخ میں وہ مقصد ہے جسے حاصل کرنے کے لیے وانی اور 150حریت پسند کمربستہ ہیں۔ چیزوں کو اس انداز سے دیکھیں تو وہ نوجوان جو پتھر پھینکتے ہیں وہ ''دیوار سے لگائے گئے'' اور ''بنیاد پرست'' ہیں جبکہ حریت پسند ''جہادی'' اور ''دہشتگرد'' ہیں۔
ہم کیا چاہتے، آزادی؟
اگلے دن — برہان وانی کے جنازے کے موقعے پر — ناشتے کا وقت تھا اور ہمارے محلے کے لڑکوں نے چوک کی جانب جانے والی سڑک کے بیچ درختوں کی شاخیں اور ملبہ رکھ دیا۔ وہ تمام ٹین ایجرز یا 20 سال سے کچھ زیادہ عمر لگ رہے تھے؛ ان میں سے ایک تو خاص طور پر اور بھی چھوٹا، شاید 10 یا 12 سال سے بھی کم عمر تھا۔
اس کی بلند آواز دور سے بھی سنائی دے رہی تھی۔ زیادہ تر لڑکوں نے اپنا چہرہ آنکھوں تک ڈھانپا ہوا تھا، دیگر نے کچھ ایسا ہی سر پوش پہنا ہوا تھا جو میں نے ابوغریب کے تشدد زدہ عراقیوں کی تصاویر میں ان کے سروں پر پہنا دیکھا تھا۔
مگر یہاں انہوں نے آنکھوں اور ناک کی جگہوں پر اس کپڑے میں سے سوراخ بنائے ہوئے تھے۔ میں یہ سوچتی ہوں کہ کشمیر کے تفتیشی مراکز میں ہونے والے جس سلوک کو انسانی حقوق کی تنظیموں نے قلمبند کیا ہے، اس کے سامنے تو ابوغریب بھی شرمسار ہو جائے گا۔
سڑک کے بیچ میں ایک تھیلا پڑا ہوا تھا جو کہ تھوڑا پھولا ہوا لگ رہا تھا۔ میرا اندازہ ہے کہ اس میں پتھر بھرے تھے۔ 10 لڑکوں کا ایک گروپ سڑک پر موجود واحد اور کاٹے جانے سے محفوظ رہے شہتوت کے درخت کے نیچے سپاٹ کیے ہوئے ڈبوں پر بیٹھا ہوا تھا۔
وہ بلند آواز میں باتیں کر رہے تھے کہ جیسے ہی مسلح افواج حرکت میں آتی ہیں تو کس طرح کچھ پڑوسی اپنی حفاظت کی خاطر دروازوں کو لاک کردیتے ہیں اور بھاگ نکلنے کے ممکنہ راستوں کو بلاک کر دیتے ہیں۔ میں نے اپنے پڑوسیوں کے پاس جانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے بھی اپنا دروازہ اندر سے بند کیا ہوا تھا۔
پڑھیں: ہندوستانی فوج کے ہاتھوں 17 کشمیری ہلاک
جموں و کمشیر پولیس کے اہلکار مین چوک کے پاس تقریباً 250 میٹر کے فاصلے پر کھڑے اپنی لاٹھیاں گھما رہے تھے۔ میں جیسے ہی اپنے پڑوسی کے گھر سے لوٹی تو پولیس نے اچانک ہی ایک آنسو گیس کا شیل فائر کیا جو تین گھر دور جا کر گرا۔ ممکن ہے انہوں نے ایسا مظاہرین کے گروہ کو منتشر کرنے کی غرض سے کیا ہو۔
ایک زوردار دھماکے کی آواز آئی اور اس کے ساتھ ہی روشنی بکھر گئی۔ ہوا میں دھواں بھر گیا تھا۔ میں نے گھبرا کر گھر کی طرف دوڑ لگائی مگر میں نے لڑکوں کے منتشر ہونے کا شور نہیں سنا۔ میں نے دیوار اور دروازے کے درمیان دراڑ سے غور سے دیکھا۔ لڑکے پولیس کی گاڑیوں کے قریب گئے اور زور سے کشمیری زبان میں چلائے ''پوندے پولیس''۔ گھٹیا پولیس۔
ان میں سے ایک جو اپنی پینٹ کے پائنچے اوپر کر رہا تھا، کہنے لگا، ''اس سے کیا ہوگا؟'' اس نے پائنچے ٹخنوں سے تھوڑا اوپر کر لیے تھے؛ اس نے چپلیں پہنی تھیں۔
اپنی ٹی شرٹ کی آستینیں چڑھاتے ہوئے اس نے ایک پتھر اٹھایا اور سڑک کی دوسری جانب بجلی کے ایک کھمبے کو زور سے مارا پھر ایک دوسرا اٹھا کر مارا پھر تیسرا مارا، جیسے اپنے عزم کو پختہ کر رہا ہو۔ کھمبے پر پتھر لگنے سے پیدا ہونے والی آواز خاموشی کو چیرتی گونج پیدا کر رہی تھی۔
پولیس نے ایک دستے کی صورت میں قریب آنا شروع کیا۔ انہوں نے سر سے پاؤں تک خود کو حفاظتی سامان سے ڈھانپا ہوا تھا: پنجرے نما جالی ہیلمٹ کے ساتھ لگی ہوئی تھی، گھٹنوں اور بازوؤں پر سیف گارڈز جبکہ سینے پر بلٹ پروف جیکٹس پہنی ہوئی تھیں۔ تمام اہلکاروں نے بندوقیں یا لاٹھیاں یا دونوں تھامے ہوئے تھے۔
میں نے منتشر ہوتے لوگوں کے قدموں کی آواز سنی، لوہے کے دروازوں کی زور سے بند ہونے کی آوازیں اور پولیس جیپوں کے سائرن کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ ایک منٹ کے اندر ہی پولیس نے لڑکوں کی جانب متعدد آنسو گیس شیل فائر کیے۔ شہتوت کے درخت کے پیچھے سے دھواں اٹھنا شروع ہوا۔
ایک لڑکے نے پولیس کو برا بھلا کہا اور پھر نعرہ تکبیر ''اللہ اکبر'' بلند کیا۔ اس کے بعد نعرہ بلند کیا ''ہم کیا چاہتے، آزادی؟'' دیگر بھی نعرے بازی میں شریک ہو گئے۔
جذباتی سوال پر مشتمل یہ نعرہ یہاں کئی احتجاجی مظاہروں میں لوگ ایک ساتھ مل کر باآواز بلند لگاتے ہیں۔ اس نعرے کو ہمیشہ ہندی میں ہی لگایا جاتا ہے کبھی کشمیری میں نہیں لگایا جاتا؛ یہ نعرہ واضح انداز میں اقتدار نشینوں سے کلام کرتا ہے۔
لڑکوں نے پتھراؤ شروع کردیا، پولیس نے مزید شیل فائر کیے۔ جلد ہی احتجاج ایک سے دوسرے محلے منتقل ہو گیا۔
پولیس کے پاس گولیوں سے بچنے کا پورا انتظام تھا جو کہ مظاہرین کے پاس موجود ہی نہیں تھیں مگر مظاہرین کے پاس پولیس کی گولیوں سے بچنے کے لیے اپنی پھرتی کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔
اس کے باوجود میں ایک لمحے کے لیے یہ بھول بیٹھی تھی کہ لڑکے وہاں کس کے خلاف تھے: جہاں دنیا کی کسی بھی جگہ کے مقابلے میں سب سے زیادہ مسلح اہلکار تعینات ہیں۔ مثالی خوبصورتی کا مالک یہ خطہء زمین دنیا کا سب سے زیادہ عسکری علاقہ ہے، جہاں ہر 15 کشمیریوں کے لیے ایک سپاہی موجود ہے۔ میں یہ سوچ کر حیران ہوتی ہوں کہ ان لڑکوں نے اپنے ڈر کو آخر کس طرح شکست دی ہوئی تھی۔