ٹوائلٹس کی کمی بھی کوئی مسئلہ ہے؟
چار سال سے سپریم کورٹ آف پاکستان کی راہداریوں اور عدالتی کمروں میں خبروں کی تلاش میں گھوم رہی ہوں، مگر ایک کمی جو پہلے دن محسوس کی وہ آج بھی جوں کی توں ہے۔
وہ کمی ہے خواتین سائلین کے لیے مناسب سہولیات کا نہ ہونا۔
پڑھنے والے شاید یہ کہیں کہ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کرنے کی، بالکل یہی الفاظ ہمارے سامنے دہرائے گئے تھے جب اس عمارت کی بعض نہایت محترم ہستیوں کے سامنے خواتین کے بیت الخلاؤں کی عدم موجودگی کا مدعا رکھا۔ بعد میں حکام بالا کو صرف زبانی آگاہ ہی نہیں کیا، بلکہ خط بھی لکھ ڈالا۔
نتیجہ وہی گہرا سناٹا۔
سپریم کورٹ میں جو چند ایک خواتین کے لیے مخصوص واش رومز ہیں، وہاں بھی پڑا تالا منہ چڑاتا ہے۔ فرض کریں کہ کسی خاتون نے یہاں وہاں پوچھ کر ایک زنانہ بیت الخلاء ڈھونڈ بھی لیا، زہے نصیب کہ اس پر تالا بھی نہیں مگر اندر موجود ناکافی سہولیات ایسی ملیں گی کہ وہ آفت کی ماری اللہ کی بندی دانت پیس کر ہی رہ جائے۔
حالانکہ ان واش رومز کو خواتین دوست بنانے کے لیے کسی بڑی سائنس کی ضرورت نہیں۔ پانی، بڑے واش بیسن، ہاتھ دھونے کے لیے صابن اور بوقت ضرورت بچوں کے ڈائپر یا کپڑے بدلنے کے لیے مناسب سلیب، ٹشو پیپرز، سینٹری ٹاولز اور کوڑے دان جیسی معمولی سہولیات دے کر ایک بہترین واش روم بنایا جاسکتا ہے۔
پڑھیے: 4 کروڑ 10 لاکھ پاکستانی ٹوائلٹ کی سہولت سے محروم
مگر انتظامیہ نے شاید یہ نہیں سوچا کہ یہاں آنے والی خواتین کے بچے بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ بچے دودھ پیتے نومولود بھی ہوسکتے ہیں اور لڑکپن کی عمر والے بھی۔ پوری عمارت کا چپہ چپہ چھان لیں، اپنے مقمدمات کی پیروی کے لیے آنے والی ایسی ماؤں کے لیے بیٹھنے کی کوئی جا نہیں۔ یہ خواتین اپنے بچوں کو گودوں میں لیے راہداریوں کے کونوں میں سمٹی سمٹائی فرش پر نظر آتی ہیں۔
اگر مقدمہ چلتے چلتے بوڑھا ہوگیا اور سالوں بعد بھی قضیہ حل ہونے کا نام نہیں لے رہا، تو ایسے میں بعض مائیں اپنے شریر بچوں کے ساتھ یہاں آنے پر مجبور ہوتی ہیں۔
بعض اوقات مقدمات کی فہرستیں اتنی طویل ہوتی ہیں کہ ان خواتین کے کیسز کی باری آتے دوپہر ہوجائے، تو بچے سنگِ مرمر سے مزین دیواریں دیکھتے دیکھتے اکتا جاتے ہیں، اور بیزاری کے باعث کمرہء عدالت میں ہی شرارتیں کرنے لگتے ہیں۔ نتیجتاً ان کی ماؤں کو شرمندگی کے مارے کمرہ عدالت سے باہر جاتے ہی بن پڑتی ہے۔
خواتین کے لیے ایسے سرکاری دفاتر میں اپنے کام سے جانا یوں بھی مشکل ہے کہ اگر کام طول پکڑ لے اور خاتون کو اس پبلک آفس کی کینٹین سے کچھ کھانا پڑ جائے، تو ان کے لیے بیٹھنے کی جگہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ یا پھر بحالتِ مجبوری مردوں کے ساتھ والی ٹیبل پر ہی بیٹھا جائے تو پھر عجیب نظروں کے لیے بھی تیار رہا جائے۔
سپریم کورٹ کی عمارت کوئی واحد مثال نہیں۔ اکثریتی سرکاری عمارات میں خواتین کی ضروریات کو سرے سے اہمیت ہی نہیں دی گئی، لگتا تو یہ ہے جب ان دفاتر کو ڈیزائن اور تعمیر کیا گیا تو شاید یہ سوچا ہی نہیں گیا تھا کہ یہاں خواتین بھی کبھی قدم رکھیں گی۔ کچہری، پنشن، بجلی، گیس کے دفاتر، تھانے اور مختلف سول سیکرٹریٹس، ہر دفتر مردوں کا دفتر ہے۔
سارا قصور سرکار پر کیا ڈالیں جناب، یہاں تو نجی شعبے کے بلند و بالا دفاتر میں بھی خواتین ملازمین کے لیے علیحدہ عبادت گاہ یا کامن روم وغیرہ کا کوئی تصور نہیں۔
مزید پڑھیے: صنفی عدم مساوات میں میڈیا کا کردار
ان دفاتر میں کام کرنے والی خواتین اگر ماں بن جائیں اور مجبوراً اپنے بچے کو دفتر لانا پڑے، یا بچے کی آیا کے ساتھ آنا پڑے تو دوہری مصیبت ہے کیونکہ جہاں ان کے لیے کوئی ایسی سہولت نہیں تو وہاں ان کے بچے رکھنے کے لیے نرسری کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
ترقی یافتہ ممالک میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ کسی بھی عمارت، چاہے وہ کوئی دفتر ہو یا تعلیمی ادارہ، میں آنے والی خواتین حاملہ بھی ہو سکتی ہیں اور شیر خوار یا چھوٹے بچوں والی بھی۔ ہاں یہ تعداد زیادہ نہیں ہوتی، مگر پھر بھی ایسا نہیں ہے کہ ایسی خواتین بالکل ناپید ہیں۔
ان خواتین کی سہولت کے لیے خصوصی جگہیں مختص کی جاتی ہیں جہاں وہ اپنے بچوں کو دودھ پلا سکیں، یا پھر تھوڑی دیر کے لیے کھیل کود میں مصروف رہنے کے لیے چھوڑ سکیں تاکہ وہ خود اپنے کام نمٹا سکیں۔
اس کے علاوہ حاملہ خواتین کے کام کرنے کے اوقات میں تبدیلی، چھٹیوں میں اضافہ اور بچے کی پیدائش کے بعد ان کے لیے ایسا کمرہ جہاں پر وہ کام پر لوٹنے کے بعد اپنے بچے کا خیال رکھ سکیں مہیا کیا جاتا ہے۔
اور یہ تمام چیزیں سہولیات یا عیاشی یا خصوصی انعام میں نہیں بلکہ بنیادی حقوق میں شمار کی جاتی ہیں۔ تو کیا ان کا تقاضہ کرنا چاند تاروں کا مطالبہ کر لینے کے برابر ہے؟
مگر کیا کریں جی، ہم تو پاکستان نامی ملک میں رہتے ہیں۔ یہاں کس کو فکر ہے ان سب باتوں کی؟
ایک امریکی ریسرچ جرنل نیچر کلائمیٹ چینج کے مطابق جدید ایئرٹائٹ دفاتر میں کمپیوٹرز و دیگر ٹیکنالوجی کی ڈیوائسز کی وجہ سے مرکزی ایئرکنڈیشنڈ سسٹم سے ماحول ٹھنڈا رکھا جاتا ہے۔ ان دفاتر میں عموماً خواتین ورکرز شدید گرمی کے دنوں میں بھی ٹھنڈ کی شکایت کرتی جبکہ ان کے مرد ساتھی ان کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں۔
پڑھیے: میں یہاں اپنی ذات کی نمائش کرنے کے لیے نہیں آئی
تحقیق کے مطابق 25 ڈگری سینٹی گریڈ تک خواتین ایئرکنڈیشنڈ ماحول میں مؤثر طور پر کام کرسکتی ہیں، جبکہ مرد 20 سے 21 ڈگری سینٹی گریڈ تک کے ٹھنڈے ماحول میں کام کرسکتے ہیں۔
مگر مردوں کی اکثریت کی وجہ سے انہیں یا تو وہی ٹھنڈا ماحول برداشت کرنا پڑتا ہے، یا پھر سوئیٹر شال پہننی پڑتی ہے، طعنے تنکے الگ سننے پڑتے ہیں کیونکہ زیادہ تر لوگ ان تحقیقات سے واقف نہیں۔
میرے کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ تمام مرد خواتین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے طور پر 25 یا 30 ڈگری برداشت کر کے بیٹھے رہیں۔ بلاشبہ یہ دونوں صنفوں میں موجود طبعی فرق کی وجہ سے ہے جس میں کسی کو ذمہ دار یا قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
سائنس نے تو مشورہ دیا ہے کہ ان دفاتر کو خواتین دوست بنانے کے لیے دفتر کے درجہء حرارت کو نارمل رکھا جائے، اتنا کہ نہ ہی مرد ملازمین کو زیادہ گرمی کی شکایت ہو اور نہ ہی خواتین کو ٹھنڈ کی۔
مگر ہم تو یہاں بیت الخلا کی عدم موجودگی کو رو رہے ہیں ،دفتری ایئرکنڈیشن کے درجہ حرارت والے مشورے کو کون گھاس ڈالے گا؟
عفت حسن رضوی اسلام آباد کی نجی نیوز ایجنسی کی کاریسپانڈٹ ہیں اور بین الاقوامی نشریاتی اداروں کے ساتھ بطور فری لانس کالم کار وابستہ ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: IffatHasanRizvi@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔