عجائب گھروں اور باغات کا شہر، انقرہ
کانفرنس کا باقاعدہ آغاز ہوا تو ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ عنوان ’سفارت کاری‘ تھا اور ہماری تو سات نسلوں میں کوئی سفارت کار نہیں گزرا۔ ترکی کے لالچ میں یہاں تک پہنچ تو گئے تھے، اب کیا کیا جائے؟
اپنی پھوٹی قسمت کو کوس ہی رہے تھے کہ آڈیٹوریم میں وائے فائے کا پاس ورڈ ہاتھ آ گیا۔ یقین کیجیے، اتنی خوشی حاتم طائی کو شہزادی حسن بانو سے مل کر نہیں ہو گی جتنی اس سمے ہم نے محسوس کی۔
آغاز مراکش سے تعلق رکھنے والے پروفیسر بینس نے کیا جو منتظم اعلیٰ بھی تھے۔ انہوں نے سفارت کاری کی مختصر تاریخ اور کچھ دلچسپ واقعات سنائے۔ بعد ازاں امریکی سفارت خانے کی نمائندہ ایک خاتون نے کاغذ پر لکھی تحریر پڑھنے کا شاندار مظاہرہ کیا۔
ان کے بعد ترکی میں جنوبی افریقہ کے سفیر نے اپنے ملک کا تعارف کرایا اور افریقی سفارت کاروں کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالی۔ اس دوران ہم اپنے گردونواح میں موجود خواتین و حضرات پر مشتمل WhatsApp گروپ میں گفتگو کرتے رہے۔
کارروائی شروع ہونے کے کچھ دیر بعد آدھے شرکاء نیند کی وادیوں میں محو تھے لہٰذا یہ فیصلہ ہوا کہ سوتے ہوؤں کی تصاویر کھینچ کر WhatsApp پر ڈالی جائیں۔ اس تماشے کے دوران ہمارا تعارف ’گلینا‘ نامی کرد دوشیزہ سے ہوا جو برطانیہ کے کسی بینک میں تعینات تھی۔ ظہرانے کا اہتمام یونیورسٹی میں ہی کیا گیا تھا اور کھانے کا نام سنتے ہی سب کی نیند رفو چکر ہو گئی۔