نقطہ نظر

حاجی نوشاد کی بگھی پر ہندوؤں کی رتھ یاترا

کراچی کے علاقے میں ایک منفرد رتھ یاترا ایسی ہوتی ہے جس کو ممکن بنانے میں مسلمان اور مسیحی دونوں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

مسلمان کی بگھی پر ہندوؤں کا بھگوان سوار ہو تو یہ حیرت کی بات تو ہے۔

لیکن یہ ایک حقیقت ہے۔ یہ واقعہ اکبر اعظم کے ہندوستان پر راج کے دوران پیش نہیں آیا جب ہندو اور مسلمان ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے تھے۔

ہندوستان کی تقسیم تک تو صورت حال یہ ہوگئی تھی کہ مشترکہ ہندوستان کے ریلوے اسٹیشنوں پر ہندو اور مسلمان پانی کی آوازیں لگا کر ہندؤں کو’ شدھ‘ اور مسلمانوں کو ’پاک‘ پانی پلایا جاتا تھا۔

میرے آبائی شہر میرپورخاص کے عین وسط میں بلدیہ میرپور خاص کی قدیم عمارت تھی، جس میں ایک خوب صورت لان تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے دورہ میرپور خاص کے دوران اِسی لان میں عوام سے خطاب کیا تھا۔ اب یہاں ایک شاپنگ سینٹر بنا دیا گیا ہے۔

شاپنگ سینٹر کی تعمیر کے وقت یہاں پر ایک ٹھنڈے پانی کی سبیل تھی، جو سیٹھ دھن راج مل نے 1960 میں عوام کی سہولت کے لیے قائم کی تھی۔

پڑھیے: غیرمسلموں کی نایاب سبیلیں

1960 کی دہائی وہ تھی جب میرپور خاص میں ہندو تقریباً نا ہونے کے برابر تھے۔ 1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے بعد میرپور خاص کے ہندوؤں کی بڑی آبادی اپنے گھر، زرعی زمینیں اور جائدادیں چھوڑ کر ہندوستان منتقل ہو گئے تھے۔

اب سمجھ نہیں آتا کہ دھن راج مل نے 1960 میں پینے کے ٹھنڈے پانی کی یہ سبیل کیوں قائم کی۔ اسے اس بات کا بخوبی اندازہ تو ہوگا کہ میرپور خاص میں پانی پینے کے لیے ہندو تو نا ہونے کے برابر ہیں، لیکن اس کے باوجود اس نے یہ سبیل بنائی۔

1960 سے لے کر 1992 تک شہر کے مرکزی علاقے میں یہ واحد ٹھنڈے پانی کی سبیل موجود تھی جس سے 98 فیصد مسلمان استفادہ کرتے تھے، لیکن 1992 میں میرپور خاص کا حلیہ مکمل طور پر تبدیل ہوگیا۔

1992 کے بعد بلدیہ کا یہ وسیع اور کشادہ علاقہ ایک بہت مصروف کاروباری مرکز ’بلدیہ شاپنگ سینٹر‘ کے نام سے موجود ہے۔ بلدیہ کے جس پارک میں قائد اعظم نے تقریر کی تھی اس کا دُور دُور تک کوئی نشان بھی نظر نہیں آتا جبکہ دھن راج کی سبیل کی جگہ پر اب ایک دکان ہے۔

خیر۔ ہم ذکر کر رہے تھے رتھ یاترا کا۔ رتھ یاترا کا نام سنتے ہی ہمارے ذہن میں سب سے پہلا خیال بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما لال کرشن ایڈوانی کا آتا ہے۔

ایڈوانی صاحب کی جنم بھومی کراچی ہے۔ انہوں نے ہندوستان میں ایک رتھ یاترا کی تھی۔ کراچی ہی میں گذشتہ سات سال سے ایک رتھ یاترا منعقد کی جاتی ہے۔ اس سال بھی یہ رتھ یاترا منعقد ہوئی، جس میں پانچ سو سے زائد ہندو مرد و خواتین نے حصہ لیا۔

ان مرد و خواتین میں سے کچھ کے ہاتھ میں پاکستانی پرچم بھی تھے۔ اگر ایڈوانی نے یہ منظر دیکھا ہو تو ان کا دل خون کے آنسورویا ہوگا۔ اس کی سادہ سی وجہ ہے کہ انہوں نے 25 ستمبر 1990 میں ہندوستان کے شہر سومناتھ سے اپنی رتھ یاترا کا آغاز کیا اور اس کا اختتام ایودھیا میں ہوا۔

ہندو برادری کے مرد و خواتین رتھ یاترا میں شرکت کے لیے آ رہے ہیں۔ — فوٹو سید شریف الحسن

کراچی کے علاقے صدر میں یہ رتھ یاترا گذشتہ 14 سال سے منعقد کی جا رہی ہے۔ — فوٹو سید شریف الحسن

اس موقع پر شرکاء کا جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے۔ — فوٹو سید شریف الحسن

اس یاترا کا بنیادی مقصد بابری مسجد کو مسمار کرنا تھا تاکہ اسی جگہ پر رام جنم بھومی تعمیر کی جاسکے۔ عقیدے کے پختہ ہندوؤں کا یہ خیال ہے کہ جس مقام پر بابری مسجد موجود تھی، ٹھیک اسی جگہ پر رام کا جنم ہوا تھا۔

اب بھی راسخ العقیدہ ہندوؤں کا یہ خیال ہے کہ جلد از جلد اس جگہ پر رام جنم بھومی تعمیر کی جائے، لیکن یہ معاملہ تاحال ہندوستانی سپریم کورٹ میں زیرِ التوا ہے اور فیصلے کا منتظر ہے۔

ہاں تو ہم بات کر رہے تھے کراچی میں جگنناتھ یاترا کی۔ کراچی میں یہ رتھ یاترا جس علاقے میں ہوتی ہے، وہ صدر کا علاقہ ہے۔ اس علاقے کے بالکل قریب وہ اسکول بھی موجود ہے جہاں لال کرشن ایڈوانی نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔

2005 میں ایڈوانی نے کراچی کا دورہ کیا تھا اور اپنے اس اسکول میں بھی کچھ وقت گزارا تھا۔ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ انہوں نے 1992 میں جو رتھ یاترا کی تھی اس کا ایک ہی بنیادی مقصد تھا ’’نفرت، نفرت، نفرت اور نفرت‘‘ کی سیاست۔ لیکن کراچی میں جو رتھ یاترا ہوتی ہے اس کی بنیاد ’’محبت، محبت، محبت اور صرف محبت‘‘ ہے۔

کراچی میں ہونے والی جگنناتھ رتھ یاترا کا آغاز 2002 میں کرشنا کشور داس نے کیا۔ اب ان کے ساتھ ایک نوجوان سنجیش بھی شامل ہیں۔ یہ یاترا شروع میں بہت ہی مختصر ہوا کرتی تھی، لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے گُرو راجا رام داس نے انہیں ہدایت کی کہ اس کام کو آگے بڑھاؤ۔ آج اس تقریب میں شرکت کے لیے لوگ آرمی پبلک اسکول کے قریب تک آتے ہیں اور چکر لگاتے ہیں لیکن کل یہاں پرلوگ لکی اسٹار سے آئیں گے۔

پہلے لوگ جمع ہو کر پوجا پاٹ کرتے ہیں۔ — فوٹو سید شریف الحسن

اس کے بعد بھگوان کی مورتیوں کو بگھی میں سوار کروایا جاتا ہے۔ — فوٹو سید شریف الحسن

مرد و خواتین بگھی کے ساتھ چلتے ہیں اور مرادیں مانگتے ہیں۔ — فوٹو سید شریف الحسن

جلوس میں رقص کیا جاتا ہے اور لوگ خوشیاں مناتے ہیں۔ — فوٹو سید شریف الحسن

اور ان کی یہ بات سچ ثابت ہوئی۔ سات سال بعد یہ کراچی میں ہندوؤں کا ایک بہت بڑا تہوار بن گیا ہے۔ مہاراج کے مطابق رتھ یاترا کا آغاز اڑیسہ سے ہوا تھا لیکن آج یہ پورے ہندو سندھ میں منائی جاتی ہے۔

اس یاترا کے دوران بھگوان کو مندر سے باہر لایا جاتا ہے اور جس رتھ پر بٹھایا جاتا ہے اس کے اطراف میں لگائی جانے والی رّسی کو پکڑنے والے اپنے پاپوں سے مُکت (گناہوں سے پاک) ہوجاتے ہیں، جو نردھن (غریب) ہے تو وہ دھنی (امیر) بن جاتا ہے۔ سنتان کو سنتان سن کی پراپتی ہوتی ہے (بے اولادوں کو اولاد ملتی ہے)۔

ہمارے دوست سنجیش جو اس رتھ یاترا کے منتظمین میں شامل ہیں، انہوں نے بتایا کہ کراچی کے مسلمانوں کے تعاون کے بغیر اتنی بڑی تقریب کا انعقاد ممکن نہیں۔ ان دوستوں میں علی ارمان بلتستانی، عابد، کنٹونمنٹ بورڈ کے کونسلر ایوب، آرٹلری میدان تھانے کے سلیم صاحب، صدر تھانے کے مہربان جناب لیاقت اور ملک صاحب کے تعاون کے بغیر اس طرح کی تقریبات کا انعقاد بہت مشکل ہوتا۔ اس دوران نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے کراچی کے مسیحیوں کی اسکاؤٹ ٹیم نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا۔

بگھی کی پشت پر حاجی نوشاد صابر علی کا نام واضح ہے۔ فوٹو ارشد سولنگی

ہمارے بلاگ کا عنوان ’حاجی نوشاد کی بگھی‘ پر رتھ یاترا ہے۔ میں اس عنوان کو درست سمجھتا ہوں اور یہ درست بھی ہوگا۔ کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر علاقوں میں یہ بگھیاں اب ناپید ہیں، لیکن کراچی میں موجود ہیں۔

یہ سواریاں مسلمانوں کی بنائی ہوئی ہیں اور بگھی مالکان اور کوچوانوں میں اکثریت مسلمانوں کی ہی ہے، لیکن وہ انہیں ہندوؤں کی مذہبی رسومات کے لیے نہ صرف بخوشی دیتے ہیں، بلکہ اس موقع پر ان کے کوچوان پوری دلجمعی سے کام کرتے نظر آتے ہیں۔ مجال ہے کہ کوئی یہ کہہ دے کہ ہماری بگھی ہندوؤں کو نہیں دی جائے گی۔

اگر آپ بگھی کے اگلے حصے پر دیکھیں تو بہت ہی منقش انداز میں ’شادی مبارک‘ لکھا نظرآتا ہے، لیکن پچھلے حصے پر ’حاجی نوشاد صابر علی‘ صاحب کا نام لکھا ہوتا ہے۔

ہم نے اپنے گذشتہ بلاگ میں کراچی کے ایک صحافی کے ہندو صحافی کے بارے میں ذکر کیا تھا کہ ان کے دفتر میں ان پر اپنے برتن الگ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا۔ اب ایسے ملک میں جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی مذہب کی بناء پر برتن الگ کر دیتے ہوں، وہاں ہندوؤں کو بھگوان سوار کروانے کے لیے مسلمانوں کی بگھی کس طرح مل جاتی ہے، یہ سوچنے کی بات ہے۔

خیر! ہم نے رتھ یاترا کے دوران بچ بچا کر، چھپ چھپا کر رش کے دوران بگھی کے کوچوان رحمت کو پکڑ لیا اور اس سے پوچھا کہ آخر یہ معاملہ کیا ہے؟

رحمت نے اپنے بائیں ہاتھ کی پانچویں انگلی سے ناک کھجاتے ہوئے، اور دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت سے نسوار نما ایک گولی نکال کر پھینکتے ہوئے کہا "بھائی ان ہندوؤں کی وجہ سے ہمارا کام چل رہا ہے۔ ابھی بھی تکلیف ہے؟"

ویسے ہمیں تکلیف تو نہیں تھی، بس حیرانی تھی جس کی وجہ سے پوچھا تھا۔ ہمارے نزدیک تو یہ شہرِ کراچی میں مذہبی برداشت اور رواداری کی ایسی مثال ہے جو ہمارے لیے تمغے کی حیثیت رکھتی ہے۔

یہاں اگر ہندوؤں کو رتھ یاترا کے لیے مسلمان اپنی بگھی دیتے ہیں، تو یہی وہ شہر ہے جہاں ایدھی صاحب اپنے گھر میں ہندو لڑکی کے لیے مندر بنواتے ہیں، سکھ محرم کی سبیل لگاتے ہیں، مندر میں امام حسین کا تعزیہ موجود ہے اور ہندو عاشور کا جلوس نکالتے ہیں۔

ابھی رحمت کوچوان نے اپنا جملہ مکمل کیا ہی تھا کہ اچانک ان کے گلے میں خرخراہٹ سی پیدا ہوئی اور اس کے بعد انہوں نے زور سے زمین پر تھوکا۔

کیا بتاؤں مجھے ایسا لگا کہ جہاں تھوک گری تھی وہ زمین نہیں، بلکہ تمام لوگوں کی نفرت کی سیاست تھی۔

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔