کھیل

24 جولائی: جب پاکستان 15 سال بعد آسٹریلیا سے جیتا

پاکستان نے 24 جولائی 2010 کو آسٹریلیا کو ٹیسٹ میچ میں شکست دے کر 15 سال سے فتح حاصل نہ کرنے کے جمود کو توڑ دیا تھا۔

قومی ٹیم اگرچہ اس وقت انگلینڈ کے خلاف مانچسٹر کے گراؤنڈ پر ٹیسٹ سیریز کے دوسرے معرکے میں مشکلات کا شکار ہے مگر ٹھیک 6 سال پہلے 2010 میں آج ہی کے دن برطانیہ کی ہی سرزمین پر پاکستان نے اپنی ہوم سیریز میں کینگروز کو 15 سال بعد ٹیسٹ میچ میں شکست دے کر مسلسل ناکامیوں کے سلسلے کے آگے بند باندھ دیا تھا۔

اس سے قبل پاکستان کو کینگروز کے خلاف دو ڈرا مقابلوں کے بعد مسلسل 13 ٹیسٹ میچز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، 6 کپتانوں کی ناکامی کے بعد بالآخر قسمت نے سلمان بٹ کا ساتھ دیا۔

ہیڈنگلے سے قبل پاکستان نے آسٹریلیا کو آخری بار 1995 میں شکست کا مزہ چکھایا تھا۔

یہ میچ اس لحاظ سے بھی یادگار تھا کہ یہ معروف جنوبی افریقی امپائر روڈی کرٹزن کے کیریئر کا 108واں اور آخری ٹیسٹ میچ بھی تھا۔

انگلینڈ میں اپنی ہوم سیریز کھیلنے والی قومی ٹیم پہلے ٹیسٹ میچ میں 150 رنز کے بھاری مارجن سے شکست کھانے کے بعد دوسرے ٹیسٹ میچ کیلئے لیڈز پہنچی تو ماہرین کی اکثریت اس بات پر متفق تھی کہ دوسرے میچ کا نتیجہ بھی کچھ مختلف نہ ہو گا۔

پاکستان کا سابقہ ریکارڈ اور کھلاریوں کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ماہرین اس بات پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہ تھی۔

لیکن پھر میچ کے پہلے دن آسٹریلیا کے ساتھ جو ہوا، اس نے تمام پاکستانی شائقین کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیا۔

آسٹریلیا کے کپتان رکی پونٹنگ نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا جو شاید ٹیسٹ کرکٹ میں ان کے بدترین فیصلوں میں سے ایک تھا کیونکہ اگلے دو گھنٹے ان کی ٹیم کیلئے مکمل تباہی سے بھرپور تھے۔

محمد آصف، محمد عامر اور عمر گل پر مشتمل باؤلنگ اٹیک نے کینگروز کی بیٹنگ لائن کے پرخچے اڑاتے ہوئے پوری ٹیم کو 88 رنز پر ٹھکانے لگا دیا۔

جواب میں شین واٹسن نے چھ وکٹیں لے کر اپنی ٹیم کے کچھ آنسو پونچھے لیکن پہلی اننگز میں 258 رنز بنا کر گرین شرٹس نے اننگز میں 170 رنز ی بھاری برتری حاصل کی۔

دوسری اننگز میں آسٹریلین ٹیم نے قدرے بہتر بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 349 رنز بنائے لیکن پہلی اننگز کے خسارے کے سبب وہ پاکستان کو 180 رنز کا ہدف دینے میں کامیاب ہو سکی۔

عمران فرحت اور اظہر علی عمدہ بیٹنگ کی بدولت پاکستان نے تیسرے دن کھیل کا اختتام کیا تو اسے جیت کیلئے محض 40 رنز درکار تھے جبکہ چھ وکٹیں باقی تھیں جس کو دیکھتے ہوئے میچ میں پاکستان کی فتح یقینی نظر آتی تھی۔

24 جولائی 2010 کو میچ کے چوتھے روز آسٹریلیا کے 180 رنز کے ہدف کے جواب میں پاکستان نے 140 رنز 3 کھلاڑی آؤٹ سے اپنی دوسری اننگز کا پھر سے اغاز کیا تو اظہر علی 47 اور عمر اکمل دو رنز پر ناٹ آؤٹ تھے، مزید 40 رنز کا حصول پاکستان کے لئے پہاڑ سر کرنے کے مترادف ثابت ہوا۔

پاکستان نے اپنی نامکمل اننگز دوبارہ شروع کی تو اظہر علی نے ڈگ بولنجر کو دلکش کور ڈرائیو پر چوکا رسید کر کے اپنے کریئر کی اولین نصف سینچری مکمل کی مگر اگلی ہی گیند پر وہ وکٹوں کے پیچھے ٹم پین کو آسان کیچ تھما کر چلتے بنے۔ اظہر علی نے 6 چوکوں کی مدد سے 51 رنز بنائے۔

اب باری تھی تجربہ بار بیٹسمین شعیب ملک کی، جو ٹیم کو جیت کی دہلیز پر پہنچانے کا عزم لیکر کریز پر آئے۔ لیکن وکٹ کی دوسری جانب گھبراہٹ کا شکار مڈل آرڈر بیٹسمین عمر اکمل کریز پر کچھ دیر کے مہمان ثابت ہوئے، وہ محض 8 رنز بنا کر بین ہلفنہاس کی گیند پر وکٹوں کے پیچھے کیچ آؤٹ ہوگئے۔ شعیب ملک کا اسکور جب 4 تھا تو وہ پویلین واپسی سے بال بال بچے۔ تجربہ کار بیٹسمین سے قومی ٹیم کو خاصی امیدیں وابستہ تھیں مگر وہ بیچ منجھدار میں چھوڑ گئے، شعیب ملک 24 گیندوں پر صرف 10 رنز بنا پائے۔

محمد عامر بیٹنگ کے لئے آئے تو پاکستان کو جیتنے کے لئے مزید 19 رنز درکار تھے، کامران اکمل نے بولنجر کو چوکا رسید کیا اور اگلے اوور میں خوش قسمتی سے سلپ اور گلی کے درمیان کھیلے گئے شاٹ پر ان کو دوسری باؤنڈری کا تحفہ ملا جبکہ اس دوران وہ آؤٹ ہونے سے بھی بال بال بچے لیکن اس غلطی سے کامران اکمل نے سبق نہ سیکھا اور مچل جانسن کے اگلے اوور میں 13 کے انفرادی اسکور پر دوبارہ ہسی کو کیچ دے کر واپسی کی راہ لی۔

اس سے پچھلے اوور میں ہلفنہاس کی گیند عامر کے بیٹ کا کنارہ چھوتی ہوئی تھرڈ سلپ سے باؤنڈری لائن پار کر گئی، یوں اسکور برابر ہو چکا تھا، اگلے بلے باز عمر گل نے پہلی ہی گیند پر سنگل لے کر ٹیم کو ہدف تک رسائی دلادی اور یوں پاکستان نے 15 سال کے طویل صبر آزما انتظار کے بعد آسٹریلیا کو ہرا کر شکستوں کے سلسلے کا خاتمہ کردیا۔

صرف یہی نہیں بلکہ اس فتح کی بدولت قومی ٹیم ایک ایک سے سیریز برابر کرنے میں بھی کامیاب رہی اور آسٹریلیا کا مسلسل ساتویں مرتبہ ٹیسٹ سیریز جیتنے کا خواب بھی چکنا چور ہوگیا۔