دنیا

'خدارا، ابو کچھ کریں، میں درد سے مرا جارہا ہوں'

کشمیر میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے چھروں کے استعمال کے نتیجے میں متعدد بچے شدید زخمی ہوچکے ہیں۔

ہندوستان کے زیرانتظام کشمیر میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے چھروں کے استعمال کے نتیجے میں بچوں کے زخمی ہونے کا عمل جاری ہے۔

اس کے نئے شکار 8 سالہ آصف رشید اور 13 سالہ میر عرفات ہیں جو ہندوستانی فورسز کے فائر کیے گئے چھروں کا نشانہ منگل کی شب اننت ناگ میں بنے۔

سینکڑوں چھرے میر عرفات کے جسم میں گھس گئے یعنی چہرے سے لے کر ٹانگوں تک۔

اننت ناک کے ایک ہسپتال کے آئی سی یو میں داخل عرفات تکلیف سے چلاتے ہوئے کہہ رہا ہے " خدارا، ابو کچھ کریں، میں درد سے مرا جارہا ہوں"۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ چھرے عرفات کے دل، معدے اور انتڑیوں میں گھس چکے ہیں جبکہ کچھ نے تو ریڑھ کی ہڈی کو بھی چھوا ہے۔

ایک ڈاکٹر کے مطابق " اس بچے کے کئی آپریشنز کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ چھرے اہم اعضاءمیں گھس چکے ہیں، مختلف شعبوں کے ماہرین اس کی دیکھ بھال کررہے ہیں، تاہم ابھی ہم اس کی صحت کے حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتے"۔

چھروں کے نتیجے میں آصف رشید کی دائیں آنکھ اور سینے پر زخم بنے ہیں۔

عرفات کے والد عبدالرحمان کا کہنا تھا کہ بچے اس وقت فورسز کی فائرنگ کا نشانہ بنے جب وہ گھر کے باہر کرکٹ کھیل رہے تھے۔

انہوں نے بتایا " دن بھر علاقے میں مظاہرے اور تصادم ہوتے رہے، جس دوران فورسز نے چھروں کو فائر کیا جس کی زد میں ہمارے بچے بھی آگئے"۔

آٹھ جولائی کو حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی ہندوستانی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے کشمیر میں احتجاج جاری ہے جس کے دوران 45 افراد ہلاک اور 1900 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں، جن میں سے چھ سو چھروں کی زد میں آکر زخمی ہوئے اور ان میں بچوں کی اکثریت ہے۔

بارہ جولائی کو کشمیر کے ضلع شوپیاں کی رہائشی انشا ملک کی دونوں آنکھیں فورسز کی جانب سے چھروں کی فائرنگ سے ختم ہوگئیں، اس 14 سالہ لڑکی کے جسم میں سو کے قریب چھرے گھسے۔

اسی طرح دس جولائی کو چار سالہ زہرہ مجید سرینگر کے نواحی علاقے میں ہندوستانی فورسز کے فائر کیے گئے چھروں کی زد میں آئی جس سے اس کی ٹانگیں اور پیٹ متاثر ہوا۔