دنیا

شام: فضائی کارروائیوں میں 51 شہری ہلاک

شامی فورسز اور روسی فضائیہ نے مختلف علاقوں پر متعدد کارروائیوں کے دوران شیلنگ اور بمباری کی، جس میں 15 بچے بھی ہلاک ہوئے

بیروت: شام کے مختلف علاقوں میں صدر بشار السد کی فورسز اور ان کے اتحادی ممالک کی جانب سے کی جانے والی متعدد فضائی کارروائیوں سے 51 شہری ہلاک ہوگئے، جن میں 15 بچے بھی شامل ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اپنی ایک رپورٹ میں شام میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے برطانوی مانیٹرنگ گروپ کے حوالے سے بتایا کہ دارالحکومت دمشق کے قریب مشرقی غوطہ کے علاقے میں فورسز کی فضائی کارروائی میں 13 شہری ہلاک ہوئے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرکاری فورسز نے دومہ کی مرکزی مارکیٹ کو بھی نشانہ بنایا ہے، جہاں متعدد شہریوں کی ہلاکت کا خدشہ ہے تاہم فوری طور پر اس علاقے سے تفصیلات حاصل نہیں ہوسکیں ہیں۔

مزید پڑھیں: شام: امریکی اتحادیوں کے فضائی حملے میں 56 شہری ہلاک

اس کے علاوہ شام کے اہم شہر حلب میں فضائی کارروائی میں 15 افراد ہلاک ہوئے جن میں 6 بچے بھی شامل ہیں۔

یاد رہے کہ گذشتہ دو ہفتوں سے حلب میں جاری فضائی کارروائیوں کے دوران سیکڑوں شامی شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔

مانیٹرنگ گروپ کا مزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ شام کے شمال مغربی صوبے ادلب میں سرکاری فورسز کی فضائی کارروائیوں اور شیلنگ سے 23 شہری ہلاک ہوئے۔

اس کے علاوہ تال مانانس کے علاقے میں شامی فورسز اور روسی فضائیہ کی کارروائیاں میں 17 افراد ہلاک ہوئے جن میں 5 بچے بھی شامل ہیں۔

گروپ کا دعویٰ ہے کہ باداما اورسرمادا میں شامی فضائیہ کی کارروائیوں میں ایک بچے سمیت 4 افراد ہلاک ہوئے۔

امریکی حمایت یافتہ ملیشیا داعش کو 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دے دیا

رواں ہفتے کے آغاز میں شام کے علاقے مانبیج میں امریکی فضائی کارروائیوں کے دوران درجنوں شہریوں کی ہلاکت کے بعد امریکی حمایت یافتہ کرد ملیشیا نے داعش کو مذکورہ علاقے سے نکلنے کیلئے 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دے دیا ہے۔

داعش کے جنگجوؤں کیلئے مذکورہ الٹی میٹم شام کی عرب کردش ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) نے دیا۔

یہ بھی یاد رہے کہ ایس ڈی ایف جنگجوؤں کو امریکی فضائیہ کی مدد حاصل ہے اور صوبہ حلب کے علاقے مانبیج سمیت دیگر میں داعش اور اس کے دیگر اتحادی گروپوں کے ساتھ لڑ رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شام کی خانہ جنگی میں شہریوں کی مشکلات

ایس ڈی ایف نے جاری بیان میں کہا ہے کہ وہ عام شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کیلئے داعش کے اراکین کو اس علاقے سے نکلنے کی اجازت دیتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی بیان میں مقامی افراد سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے نقصان سے بچنے کیلئے علاقے کو خالی کرکے محفوظ مقام کی جانب منتقل ہوجائیں۔

خیال رہے کہ دو روز قبل شام کے علاقے مانبیج میں امریکی فضائیہ کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں میں 56 شہری ہلاک ہوگئے تھے، التخار کا علاقہ صوبہ حلب کے شمالی ٹاؤن مانبیج سے 14 کلومیٹرکے فاصلے پر قائم ہے اور یہاں شدت پسند داعش کا قبضہ ہے اور رپورٹس کے مطابق اس پر متعدد مرتبہ حملہ ہو چکا ہے۔

مزید پڑھیں: 'عراق و شام میں 30 ہزار غیر ملکی جنگجو موجود'

اس ایک روز قبل مانبیج اور التخار کے علاقوں پر ہونے والی فضائی کارروائی میں مجموعی طور پر 21 شہری ہلاک ہوئے تھے۔

یہ بھی یاد رہے کہ مذکورہ علاقہ شام اور ترک سرحد کے درمیان داعش کیلئے ایک اہم سپلائی لائن ہے، تاہم 31 مئی سے امریکی اتحادیوں نے کرد عربوں کی مدد کرتے ہوئے یہاں فضائی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔

اس سے کچھ روز قبل اقوام متحدہ نے شامی فورسز کی جانب سے جنگجوؤں کے زیر قبضہ علاقے حلب کو گھیرے میں لینے اور یہاں 200000 افراد کیلئے خوراک کی کمی پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔

بین الاقوامی ادارے کا کہنا تھا کہ علاقے میں پہلے سے امداد بھیجی جاچکی ہے تاہم معصوم شہریوں کی جانیں بچانے کیلئے مزید امداد کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: داعش کیخلاف جنگ میں ترکی، روس سے تعاون کا خواہاں

شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے دوران 2011 میں خانہ جنگی شروع ہوئی تھی، جس کے بعد سے گزشتہ 5 سال میں 2 لاکھ 80 ہزار افراد اس جنگ کا نشانہ بن چکے ہیں جبکہ لاکھوں کی تعداد میں شامی اپنے گھر بار چھوڑ کر اطراف کے ممالک میں پناہ گزین کیمپوں میں رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔

اس کے علاوہ میڈیا رپورٹس کے مطابق شام میں 5 سال سے جاری خانہ جنگی میں 11 ہزار سے زائد بچے ہلاک ہو ئے ہیں جن میں سے سینکڑوں کو دور مار بندوقوں یا اسنائپر گنز سے مارا گیا۔

جون 2014 میں شام اور عراق کے ایک بڑے رقبے پر شدت پسند تنظیم داعش نے قبضہ کیا تھا، جس کے بعد انہوں نے ابوبکر البغدادی کو اپنا خلفیہ مقرر کیا تھا، داعش کے خلاف شام اور روسی اتحاد کے علاوہ امریکا اور اس کے حامی ممالک فضائی کارروائی کر رہے ہیں، دوسری جانب داعش مخالف القاعدہ کی حامی النصرہ فرنٹ سمیت مختلف چھوٹے گروہ بھی شام کے دیگر علاقوں پر قابض ہیں۔

شام میں قیام امن کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے مذاکراتی عمل بھی شروع کیا گیا، مذاکراتی عمل کے دوران فروری میں جنگ بندی کا اعلان کیا گیا لیکن اس جنگ بندی کا اطلاق داعش اور القاعدہ پر نہیں کیا گیا۔

ادھر انسانی حقوق کی تنظیموں کا ماننا ہے کہ شام میں جاری کشیدگی کے باعث یہاں کے شہریوں کو ادویات اور خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔