پاکستان

وہ ہماری طرح منافق نہیں تھی

فیس بک ویڈیو کے ذریعے 'میں کیسی لگ رہی ہوں'؟ پوچھنے والی قندیل بلوچ کی آواز کو ہمیشہ کے لیے بند کردیا گیا۔

کراچی: فیس بک ویڈیو کے ذریعے 'میں کیسی لگ رہی ہوں'؟ پوچھنے والی قندیل بلوچ کی آواز کو ہمیشہ کے لیے بند کردیا گیا۔

ماڈل کو ملتان میں واقع ان کے آبائی گھر میں ان کے بھائی نے 'غیرت کے نام' پر قتل کیا، جو سوشل میڈیا پر ان کی تصاویر اور ویڈیوز کی وجہ سے ان سے ناراض تھے۔

قندیل اپنی بولڈ تصاویر اور ویڈیوز کی وجہ سے ہمیشہ ہی تنازعات کی زد میں رہیں، جہاں ایک طرف تو لوگ ان کے بولڈ انداز پر تنقید کرتے تھے، وہیں ان کی ہر ویڈیو کو دیکھنا بھی ان پر 'فرض' تھا، جس کا ایک ثبوت ان کے آفیشل فیس بک پیج پر ان کی ویڈیوز اور تصاویر پر آنے والے لائیکس اور کمنٹس تھے۔

مزید پڑھیں:ماڈل قندیل بلوچ 'غیرت کے نام' پر قتل

واضح رہے کہ قندیل بلوچ کے آفیشل فیس بک پیج کو 7 لاکھ 35 ہزار 5 سو 47 افراد نے لائیک کر رکھا ہے، جن میں سے زیادہ تر یقینی پاکستانی ہی ہوں گے۔

اس حوالے سے قندیل بھی اکثر شکوہ کرتی نظر آتی تھیں کہ لوگ انھیں دیکھتے بھی ہیں اور گالیاں بھی دیتے ہیں، 'کیا یہ کھلا تضاد نہیں'۔

یہ بھی پڑھیں:قندیل بلوچ تھیں کون؟

ایسی ہی ایک ویڈیو قندیل بلوچ نے کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا پر پوسٹ کی تھی، جس میں لوگوں کے دوہرے معیار پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'آپ لوگ مجھے دیکھنا بھی پسند کرتے ہیں اور پھر بولتے ہیں کہ مر کیوں نہیں جاتی، تم مر جاؤ۔'

ان کا مزید کہنا تھا، 'اگر میں مر گئی نا، تو یہاں پھر کوئی اور قندیل بلوچ نہیں آنی، 100 سال تک قندیل بلوچ پیدا نہیں ہوگی، پھر تم لوگ مجھے مِس کرو گے۔'

قندیل کی اس اچانک اور اندوہناک موت نے واقعی سب کو چونکا دیا، جو لوگ زندگی میں انھیں حقیقتاً گالیاں دیتے تھے، اب وہ بھی کہتے نظر آرہے ہیں کہ 'واقعی یہ غلط ہوا' اور 'ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا‘۔

یہ بھی پڑھیں:لڑکیاں مجھ سے متاثر ہیں، قندیل بلوچ

قندیل کے مخالفین بھی غیرت کے نام پر کیے گئے ان کے قتل پر افسردہ نظر آئے لیکن کچھ لوگوں نے انھیں موت کے بعد بھی نہیں بخشا اور سوشل میڈیا پر 'برائی کا انجام برا' اور اس جیسے ہی بے شمار پیغامات دیئے۔

کسی نے کہا، 'شکر ہے قندیل بلوچ کو قتل کردیا گیا، وہ پاکستان کے لیے بدنامی تھی'۔

تو کسی نے فتویٰ جاری کیا، 'قندیل بلوچ لازمی جہنم میں جائیں گی، ان کے بھائی نے بالکل ٹھیک کیا'۔

اور کسی نے اس واقعے کے بعد 'غیرت کے نام پر قتل' کو ہی بہترین عمل قرار دے ڈالا۔

یہ بھی پڑھیں:قندیل اور مولوی عبدالقوی کی سیلفی کی 'داستان'

یہ سب دیکھ کر اور پڑھ کر محض اتنا ہی کہنے کو دل کرتا ہے کہ ہم کون ہوتے ہیں کسی کے اعمال پر فتویٰ صادر کرنے والے، کون جانے موت کے بعد کون جنت کا حقدار ہوگا اور کون دوزخ کا، لیکن بحیثیت انسان ہم اتنا تو کرسکتے ہیں کہ کسی کی موت کے بعد اسے برا بھلا کہنا بند کردیں، کم از کم یہ تو ہمارے اختیار میں ہے۔

لیکن نہیں، جب ہم قندیل کی تصاویر اور ویڈیوز دیکھنے اور لائیک کرنے سے خود کو باز نہیں رکھ پائے تو موت کے بعد بھی اسے گالیاں دینے سے خود کو کیسے باز رکھ سکتے ہیں۔

لیکن ایک بات تو طے ہے کہ اگر قندیل غلط تھی، تم ہم بھی اتنے ہی غلط ہیں، بس فرق صرف اتنا ہے کہ قندیل کے جو دل میں تھا، وہی اس کی زبان پر بھی تھا، وہ ہماری طرح منافق نہیں تھی۔

مزید پڑھیں : قندیل بلوچ کا شادی کا اعتراف

اس نے جب جب بھی، جو جو کچھ بھی کیا، سب کے سامنے کیا اور پھر اس کا اعتراف کیا۔

مفتی قوی کے ساتھ سیلفیز کا معاملہ ہو یا کوٹ ادو کے رہائشی عاشق حسین سے شادی کا، قندیل نے کھلے عام اعتراف کیا کہ ہاں اس نے یہ کیا تھا۔

وہ جیسی بھی تھی، اس کا کردار جیسا بھی تھا، اس نے جھوٹ نہیں بولا اور واقعی کھلے دل سے اعتراف کرنے والے ایسے لوگ 100 سال میں ہی پیدا ہوتے ہیں۔