سندھ طاس معاہدہ،عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ
اسلام آباد: ہندوستان کے ساتھ 1960 میں ہونے والے سندھ طاس معاہدہ کے حوالے سے مذاکرات ناکام ہونے کے بعد پاکستان نے عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
پانی و بجلی کے سیکریٹری محمد یونس ڈھاگا کی سربراہی میں 8 رکنی وفد پانی کے تنازع پر مذاکرات کے لیے اس وقت ہندوستان میں موجود ہے، تاہم دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔
پاکستان نے ہندوستان کے اسلام آباد سے ملحقہ علاقوں میں اہم ہائیڈرو پاور پروجیکٹس کی تعمیر پر سخت تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
پانی و بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ 'پاکستان سندھ طاس معاہدے کے حل طلب فیصلے کے لیے اپنا کیس عالمی ثالثی عدالت میں پیش کرے گا۔'
پانی و بجلی کے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ہندوستان کے کشن گنگا اور رینٹل ہائیڈو پاور منصوبوں پر تحفظات ہیں، پاکستان گذشتہ ڈھائی برس سے ہندوستان کے ساتھ اس تنازع کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کررہا ہے لیکن اب تک اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ ہندوستان نے مذاکرات کے لیے پاکستانی وفد کو مدعو کیا تھا لیکن دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کامیاب نہ ہوسکے۔
ایک اور سینئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہندوستان کے ساتھ مذاکرات نہ ہونے کے بعد پاکستانی وفد ہفتے کی شام وطن لوٹے گا۔
انھوں نے بتایا کہ پاکستان نے ہندوستان کو باہمی مشاورت سے اس تنازع کو حل کرنے یا عالمی ثالثی عدالت سے رابطہ کرنے کے آپشنز دیئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: 'سندھ طاس معاہدہ مستقبل کے مسائل پر خاموش ہے'
معاہدے کے تحت اگر دونوں فریقین باہمی مشاورت سے سندھ کے پانی کا تنازع حل نہ کرسکیں تو وہ عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں ۔
پاکستان عالمی ثالثی عدالت اور غیر جانب دار ماہر کے سامنے کئی مسائل پیش کرچکا ہے لیکن پاکستان کی تاخیر اور غلفت کی وجہ سے خاطر خواہ نتائج سامنے نہ آسکے۔
پاکستان نے پہلے بگلیہار ہائیڈرو پروجیکٹ، کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک اور وولر بیراج کا کیس غیر جانب دار ماہر کے سامنے پیش کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان عالمی ثالثی عدالت کے 2013 کے فیصلے کی خلاف ورزی کررہا ہے۔
تاہم پاکستان سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرنے پر ہندوستان پر سفارتی دباؤ برقرار رکھنے میں ناکام رہا اور پاکستان کو قانونی جنگ ہارنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
ایک اور عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہندوستان نے ایک بار پھر 330 میگا واٹ کشن گنگا اور 850 میگا واٹ ریٹل پن بجلی منصوبے بناکر پاکستان کے 2 دریاؤں چناب اور جہلم کی خلاف ورزی کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت نے 2015 میں اس حوالے سے اپنا کیس عالمی ثالثی عدالت میں پیش کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا، تاہم نامعلوم وجوہات کی بناء پر اس میں پیش رفت نہ ہوسکی۔
مذاکرات میں دونوں فریقین کی ناکامی
حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان نے ہندوستان کے ساتھ کشن گنگا اور ریٹل پاور پروجیکٹس کے لیے مذاکرات کیے مگر اس معاملے پر سمجھوتہ نہ ہوسکا، پاکستانی دفتر خارجہ نے گزشتہ سال ان منصوبے کی نشاندہی کے لیے ہندوستان کو خط جاری کیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے ہندوستان کو اس تنازع کے حل کے لیے متفقہ طور پر غیر جانب دار ماہر مقرر کرنے کی پیش کش بھی کی تھی لیکن پرمننٹ کمیشن آف انڈس واٹر (پی سی آئی ڈبلیو) کے تحت دونوں ممالک اس تنازع کو حل کرنے میں ناکام ہوگئے۔
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان 1960 میں دریائے سندھ اور دوسرے دریاؤں کے پانی کی منصفانہ حصہ داری کے حوالے سے سندھ طاس معاہدہ ہوا تھا جس کے مطابق 3 دریاﺅں راوی، ستلج، بیاس پر ہندوستان کا مکمل استحقاق تسلیم کیا گیا جبکہ سندھ، جہلم اور چناب پر پاکستان کا حق مانا گیا تھا۔
یہ خبر 16 جولائی 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی