ہندوستانی فوج کے چھروں سے زخمی ہونے والا کشمیری نوجوان ایک ہسپتال میں علاج کا منتظر ہے۔ — فوٹو اے ایف پی۔
کل تک ہلاک شدگان کی تعداد 34 تک پہنچ گئی ہے جب کہ 1500 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ میں ایک اور ہسپتال پہنچا۔ ایک زخمی نیم فوجی اہلکار کو اندر لایا جاتا ہے جسے دیکھ کر سب حیرت میں ہیں کہ ماجرا کیا ہے۔
میں ایک بوڑے شخص سے ملا جنہیں لاٹھیوں سے اتنا مارا گیا ہے کہ وہ چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہے۔
ایک 24 سالہ لڑکی سے ملا۔ ایک چھرا ان کی ریڑھ کی ہڈی میں لگا ہے جس سے وہ مفلوج ہوگئی۔
وارڈ 16 کے کونے میں ایک 10 سالہ بچہ بیڈ پر پڑا ہے، اور کمرے میں کھانا اور پانی فراہم کرنے والے رضاکاروں کو دیکھ رہا ہے۔ اس بچے کے اندر اب بھی چھرے پھنسے ہوئے ہیں۔ اس جیسے سینکڑوں لوگ ہسپتالوں میں موجود ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر لوگوں کے جسموں میں یہ چھرے ہمیشہ رہیں گے کیونکہ یہ ان کے اعضاء میں کافی گہرائی تک اتر گئے ہیں۔
بچے کا بھائی اس کے سرہانے بیٹھے بیٹھے سو گیا ہے۔ ان لوگوں کے لیے راتیں پہلے سے بھی زیادہ اندھیری اور طویل ہو چکی ہیں۔
ایک اور وارڈ میں ایک عورت تیزی سے اندر آتی ہے اور کشمیری زبان میں کہتی ہے، "اس کی حالت خراب ہے۔"
عورت کے بیٹے کا اضطراب ناقابلِ برداشت ہے۔ اس کا باپ اسے دلاسہ دیتا ہے کہ اس کی طبیعت جلد ٹھیک ہوجائے گی۔ دونوں والدین اپنے بچے کو دیکھنے کے لیے بھاگتے ہیں۔
کیا یہ ظلم کبھی ختم ہوگا؟
صبح کو جب میں ہسپتال جانے کے لیے اپنے گھر سے نکلتا ہوں تو میں نوجوان رضاکاروں سے کہتا ہوں کہ وہ آس پاس کے گھروں سے سورا کے سوپ کچن کے لیے اشیاء اکٹھی کریں۔ وہ اپنی بوریاں اٹھاتے ہیں اور دروازوں پر جانا شروع کرتے ہیں۔ رضاکاروں کے ساتھ ایک ہندوستانی تارکِ وطن بھی ہے۔ وہ بوریوں کا منہ کھولتا ہے اور لوگ اس میں پیالہ پیالہ چاول ڈالنا شروع کرتے ہیں۔
ہسپتال کے باہر سینکڑوں رضاکار موجود ہیں۔ نوجوان اور بوڑھے کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہسپتال پہنچ رہے ہیں۔ ان میں سے کئی افراد نے خون کا عطیہ کیا ہے اور کئی روز سے سوئے بھی نہیں ہیں۔ دوسروں نے یا تو دوائیں عطیہ کی ہیں یا سوپ کچنز میں رضاکاری کی ہے۔ وہ زخمیوں کو خون آلود اسٹریچرز پر ڈالتے ہیں اور انہیں باتیں کر کے دلاسہ دیتے ہیں۔
یہی لوگ کشمیر کی پہچان ہیں۔
چھوٹے بچے خون عطیہ کرنے بلڈ بینک جاتے ہیں مگر انہیں کم عمر کہہ کر واپس لوٹا دیا جاتا ہے۔
ہمارے دل ماتم کناں ہیں مگر ہم ہمت نہیں ہارتے۔ ہم وہ سرد راتیں بھی دیکھ چکے ہیں جب ہمیں برف پر رینگنے کے لیے کہا گیا تھا۔ ہم نے تھکا دینے والے کریک ڈاؤن بھی دیکھے ہیں۔ ہم نے لانگ مارچوں میں لوگوں کو پانی بھی پلایا ہے۔ ہم نے ان لوگوں کو کھانا بھی کھلایا ہے جن کے گھر جلا دیے گئے تھے۔ ہم نے انہیں اس قبضے کی بربریت سے بچانے کے لیے کام کیا ہے۔ ہم نے وہ وقت بھی دیکھا ہے جب سیلاب نے ہمارے گھر تباہ کر دیے تھے۔
اب ہمارے سامنے یہ وقت ہے۔
جب ریاست ناکام ہوجائے تو ہم ریاست ہیں۔
ان لمحوں میں، گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور بمشکل سانس لینے کی آوازوں کے درمیان بھائی چارے کا ایک احساس ہے جو ہمیں متحد کرتا ہے۔ ہم آزادی کے مقصد کے لیے متحد ہیں۔
آج اس ہسپتال میں میں کشمیری ہونے پر فخرمند ہوں، اتنا کہ اس سے پہلے کبھی اتنا نہیں تھا۔
یہ ہم ہیں، یہ ہمارا عزم ہے۔ ہم کشمیری ہیں اور ہم ناقابلِ فتح ہیں۔