ملٹی میڈیا

شام کی خانہ جنگی میں شہریوں کی مشکلات

اس دوران لاکھوں کی تعداد میں شامی اپنے گھر بار چھوڑ کر اطراف کے ممالک میں پناہ گزین کیمپوں میں رہائش پر مجبور ہوئے۔

شام کے اہم شہر حلب اور اس کے مضافاتی علاقوں طارق الباب اور الشار میں صدر بشار السد کی فوج اور اتحادی افواج کے فضائی حملوں کے نتیجے میں 9 سے زائد افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئے ہیں۔

خیال رہے کہ شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے دوران 2011 میں خانہ جنگی شروع ہوئی تھی، جس کے بعد سے گزشتہ 5 سال میں 2 لاکھ 80 ہزار افراد اس جنگ کا نشانہ بن چکے ہیں جبکہ لاکھوں کی تعداد میں شامی اپنے گھر بار چھوڑ کر اطراف کے ممالک میں پناہ گزین کیمپوں میں رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔

اس کے علاوہ میڈیا رپورٹس کے مطابق شام میں 5 سال سے جاری خانہ جنگی میں 11 ہزار سے زائد بچے ہلاک ہو ئے ہیں جن میں سے سینکڑوں کو دور مار بندوقوں یا اسنائپر گنز سے مارا گیا۔

واضح رہے کہ جون 2014 میں شام اور عراق کے ایک بڑے رقبے پر شدت پسند تنظیم داعش نے قبضہ کیا تھا، جس کے بعد انہوں نے ابوبکر البغدادی کو اپنا خلفیہ مقرر کیا تھا، داعش کے خلاف شام اور روسی اتحاد کے علاوہ امریکا اور اس کے حامی ممالک فضائی کارروائی کر رہے ہیں، دوسری جانب داعش مخالف القاعدہ کی حامی النصرہ فرنٹ سمیت مختلف چھوٹے گروہ بھی شام کے دیگر علاقوں پر قابض ہیں۔

شام میں قیام امن کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے مذاکراتی عمل بھی شروع کیا گیا، مذاکراتی عمل کے دوران فروری میں جنگ بندی کا اعلان کیا گیا لیکن اس جنگ بندی کا اطلاق داعش اور القاعدہ پر نہیں کیا گیا۔

ادھر انسانی حقوق کی تنظیموں کا ماننا ہے کہ شام میں جاری کشیدگی کے باعث یہاں کے شہریوں کو ادویات اور خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔