12 دہشت گردوں کی سزائے موت کی توثیق
راولپنڈی: آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور لشکر جھنگوی سے تعلق رکھنے والے 12 دہشت گردوں کی سزائے موت کی توثیق کردی۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق یہ تمام دہشت گرد فوج، عوام، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اسکولوں پر حملوں میں ملوث تھے، اور فوجی عدالتوں نے تمام دہشت گردوں کو جرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنائی تھی۔
- محمد قیوم باچا ولد میاں سعید غنی کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا سرگرم رکن تھا اور مسلح افواج کے جوانوں و افسران، گرلز پرائمری اسکول اور مرکز صحت پر حملوں میں ملوث تھا۔
محمد قیوم نے ٹرائل کورٹ میں مجسٹریٹ کے سامنے اپنے جرائم کا اعتراف کیا اور اسے 4 چارجز میں سزائے موت سنائی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: ’2016 دہشت گردی کے خاتمے کا سال ہوگا‘
- محمد آصف ولد انور حسین، شہادت حسین ولد انور حسین اور یاسین ولد محمد یار حسین کالعدم لشکر جھنگوی کے سرگرم کارکن تھے اور شہریوں کے قتل اور فورسز پر حملوں میں ملوث تھے، جبکہ ان کے قبضے سے دھماکہ خیز مواد بھی برآمد ہوا تھا۔
محمد آصف اور شہادت حسین کو 5 چارجز جبکہ یاسین کو 5 چارجز میں موت کی سزا سنائی گئی۔
- دہشت گرد محمد طیب ولد امیر زادا کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا سرگرم رکن تھا اور اسے فوجی جوانوں اور شہریوں پر حملوں کے 3 چارجز میں سزائے موت سنائی گئی۔
مزید پڑھیں: 'دہشت گردوں کے خلاف جنگ جلد ختم نہیں ہورہی'
سید اکبر ولد لائیبر خان اور محمد ایاز ولد محمد جان بھی کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا سرگرم کارکن تھے اور مسلح افواج پر متعدد حملوں میں ملوث تھے، جن میں کئی شہادتیں ہوئیں، جبکہ دونوں کے قبضے سے دھماکہ خیز مواد بھی برآمد کیا گیا تھا۔ سید اکبر اور محمد ایاز کو مجسٹریٹ کے سامنے 2،2 چارجز میں اعتراف جرم پر سزائے موت سنائی گئی۔
برکت علی ولد عبد الغفار کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا سرگرم کارکن اور عام شہریوں کے قتل میں ملوث تھا، جبکہ اس کے قبضے سے آتشیں ہتھیار اور دھماکہ خیز مواد برآمد کیا گیا۔
عزیز الرحمٰن ولد عبد الجلال بھی تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا سرگرم کارکن اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے میں ملوث تھا، جن میں پولیس کانسٹیبل ہلاک ہوا۔ عزیز الرحمٰن ریموٹ کنٹرول ڈیوائس کے ذریعے دکانیں تباہ کرنے کے واقعے میں بھی ملوث تھا اور اسے 3 چارجز میں موت کی سزا سنائی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی کردار کی تعریف
- حسین ڈار ولد محمد رحیم، اسحٰق ولد عبد الحئی اور بہرام شیر ولد خیران بھی کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا سرگرم کارکن تھے اور فوج، قانون نافذ کرنے والے اداروں، عام شہریوں اور گرلز اسکول پر حملوں میں ملوث تھے جن میں پولیس کانسٹیبلز اور جونیئر کمیشنڈ آفیسر سمیت متعدد افراد ہلاک و زخمی ہوئے اور انہوں نے فوجی عدالت کے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے جرائم کا اعتراف کیا۔
جنرل راحیل شریف نے مارچ 2016 میں بھی کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تعلق رکھنے والے 13 دہشت گردوں کے سزائے موت کی توثیق کی تھی۔
ان دہشت گردوں پر دوران ٹرائل نانگا پربت میں غیرملکی سیاحوں کے قتل، سیدو شریف ائیرپورٹ پر حملے، قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں اور عام شہریوں کو قتل کرنے کے الزامات ثابت ہوئے تھے۔
اس سے قبل آرمی چیف نے فروری میں مختلف فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے 12 دہشت گردوں جبکہ جنوری میں 9 دہشت گردوں کی سزائے موت کی توثیق کی تھی۔
خیال رہے کہ گزشتہ سال اگست میں سپریم کورٹ نے 21ویں آئینی ترمیم کے تحت بننے والی فوجی عدالتوں کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔
چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 17 رکنی فل کورٹ بینچ نے کورٹ روم نمبر ایک میں فیصلہ سنایا تھا۔
یاد رہے کہ پارلیمنٹ نے 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد خصوصی عدالتیں قائم کرنے کیلئے 21ویں ترمیم اور پاکستان آرمی ایکٹ 1952 منظور کیا تھا۔
بعد ازاں، رواں سال 16 اپریل کو فوجی عدالتوں کی جانب سے چھ دہشت گردوں کو دی جانے والی پھانسیوں کو معطل کرتے ہوئے عدالت نے سپریم کورٹ بار کونسل کی وکیل عاصمہ جہانگیر کی دائر درخواست پر حکم امتناعی جاری کر دیا تھا۔