نقطہ نظر

کتاب راموز: آنکھوں میں بجھے جون ایلیا کا رزمیہ

ایسا معاشرہ جہاں ادبی آمریت کا دور دورہ، جہالت عروج پر ہو وہاں ایسی کتاب شایع ہونا پیاسے کو امرت مہیا کرنے کے برابر ہے۔

کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں جن کی اہمیت کتاب سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ کوئی اسے نصابِ زندگی جانتا ہے تو کسی کے دل کی سرگوشی میں وہ پنہاں ہوتی ہے۔

ایسی کتابیں قاری کی فکری زادِ راہ ثابت ہوتی ہیں۔ اس کی الماری میں رکھی ہوئی وہ کتاب گویا دل میں پیوست ہوتی ہے۔ زندگی میں ایسا فکری موڑ بھی آتا ہے جب کتاب صرف کتاب نہیں رہتی بلکہ قاری کی فکر کا مجسم وجود بن جاتی ہے.

وہ لاشعوری طور پر اس کے اردگرد اپنی دنیا تشکیل دے دیتا ہے، اس میں روز و شب بسر ہوتے ہیں، اس کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ اب وہ نہیں رہا بلکہ وہ اب وہ ہوگیا ہے جو وہ نہیں تھا۔

زیر نظر کتاب ’راموز‘ ایسی ہی ایک طلسمی کتاب ہے۔ اس کے خالق معروف شاعر اور انشائیہ نگار ’جون ایلیا‘ یوں تو کسی تعارف کے محتاج نہیں، مگر یہ کتاب ان کی فکر کا ایسا پہلو آشکار کرتی ہے جس کی جھلکیاں تو ہم نے ان کے انشائیوں اور شاعری میں دیکھیں، مگر اس کتاب میں وہ منظر پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے۔ جس کا ہمیں انتظار تھا۔

کوئی اس منظر کو ’نئی آگ کا عہد نامہ‘ کے عنوان سے جانتا تھا اور کسی کو اس سے اب راموز کے نام کی بدولت شناسائی ہوگی۔ یہ دورِحاضر کی جدید شاعری میں ایک گراں قدر اضافہ ہے جس کو فراموش کرنا بہت مشکل ہوگا۔

’راموز‘ ایک طویل نظم کا مجموعہ ہے جس کو جون ایلیا نے مختلف حصوں میں تقسیم کر کے ہرحصے کو ’لوح‘ کہا اور اس کا عنوان بھی منتخب کیا۔ اس کتاب میں اٹھارہ ’الواح‘ ہیں جن کو متن کی مناسبت سے عنوانات دیے گئے۔ جون ایلیا نے اس نظم کا نام پہلے نئی آگ کا عہد نامہ رکھا تھا مگر بعد میں بدل کر ’راموز‘ کر دیا لہٰذا یہ کتاب اسی نام سے شایع کی گئی ہے۔

جون ایلیا کی یہ کتاب فکری فلسفے کی شعری تشکیل ہے جسے سمجھنے کے لیے ایک خاص فلسفیانہ پس منظر، مختلف ادیان اورتاریخی پہلوؤں سے واقفیت ہونی چاہیے، اس مشکل معاملے کو اس کتاب کے مرتب خالد احمد انصاری نے خاصی ذہانت سے سلجھا دیا ہے۔

اس کتاب میں پروفیسر سحر انصاری کا لکھا ہوا مضمون رموزِ راموز اور سید ممتاز سعید کا اظہاریہ کتاب کی شرح کا کام کرتا ہے۔ دیگر احباب میں محمد عرفان کی تخلیقی معاونت سمیت ایک اہم اقدام اورینٹل کالج، لاہور کے شعبہ فارسی کے سربراہ معین نظامی نے کیا، انہوں نے کتاب میں برتی گئی لفظیات کی فرہنگ مرتب کر دی جس کو کتاب کے آخر میں شامل کیا گیا۔

اس کو پڑھنے کے بعد ایک عام قاری کو بھی تفہیم میں دشواری نہیں ہوتی لیکن سب سے بڑھ کر جو کام اس کتاب میں ہوا وہ ہر لوح کے لیے متصورانہ فن پارے کو تخلیق کرنا تھا۔ یہ کٹھن کام نوجوان مصور دانش رضا نے کیا۔ انہوں نے اپنے تخلیقی فن پاروں کے ذریعے قاری کے لیے بڑی سہولت مہیا کر دی. ان کی تصویریں بولتی ہوئی الواح ہیں جن کو دیکھنے کے بعد متن کا سیاق و سباق کافی حد تک سمجھا جاسکتا ہے۔ اس کام میں ان کو خالد احمد انصاری کی بھی معاونت قدم قدم پر دستیاب رہی۔

میرا یقین ہے کہ جون ایلیا ان نظموں کو لکھتے وقت جس تخلیقی کرب سے گزرے ہوں گے، اس کا سامنا دانش رضا اور خالد احمد انصاری کو بھی کرنا پڑا ہوگا۔

یہ دونوں عاشقانِ جون اس کتاب کے ذریعے جون شناسی کے فروغ میں اپنی ذمے داری کو کامیابی سے نبھاتے دکھائی دیے ہیں۔

جون ایلیا کا شمار پاکستان کے ان جدید شعرا میں ہوتا ہے جن کی پذیرائی کا سلسلہ تاخیر سے شروع ہوا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ 'شاید' بہت تاخیر سے شایع ہوا مگر بعد از اشاعت مقبولیت نے جون ایلیا کے لیے شہرت کے دروازے کھول دیے۔

ان کی وفات کے بعد سے اب تک جو شعری مجموعے شایع ہو چکے ہیں ان میں یعنی، گمان، لیکن، گویا شامل ہیں جبکہ دوسرے شعری مجموعے ’یعنی‘ کی دوبارہ اشاعت میں مزید اشعار کا اضافہ بھی ہوا۔

ایک مجموعہ ’کیوں‘ کے نام سے اشاعت کا منتظر ہے۔ ’فرنود‘ کے نام سے جون ایلیا کے انشائیوں کا مجموعہ بھی شایع ہو کر بے حد مقبول ہوا۔

اب تازہ ترین تخلیق طویل نظم ’راموز‘ منظر عام پر آئی ہے جس پر ابھی بات ہوگی۔ اس کتاب میں معروف افسانہ نگار اسد محمد خان کا اسی کتاب کے فکری رنگ میں لکھا ہوا منفرد اسلوب کا مضمون ’یوحنا ایلیاہ اور اس کے چار ہم دم‘ نہ صرف کتاب کے فکری معاملات کو بیان کرتا ہے بلکہ جون ایلیا کی ذاتی زندگی کے دریچے بھی کھولتا ہے۔

اس کتاب میں واحد مضمون زاہدہ حنا کا لکھا ہوا ہے جو بے ربط محسوس ہوا۔ انہوں نے اس میں جون ایلیا کے اس کتاب کے متعلق تخلیقی منصوبوں، نظم میں مصرعوں کی تعداد، ترتیب کے مسائل کے ساتھ ساتھ اس کتاب کو بین السطور میں رد کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ذاتی نوعیت کے معاملات کو بھی موضوع تحریر بنایا جس کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔ اس نظم میں کتنی سکت ہے، اس کا فیصلہ وقت اور قارئین کریں گے.

راموز میں کئی الواح ان کے مصرعے اور ان کے تناظر میں بنائے گئے متصورانہ فن پارے تخلیقی اعتبار سے انتہائی معنی خیز اور تہہ در تہہ معنویت کے حامل ہیں۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل اقتباس ملاحظہ کیجیے۔

سب اپنے کانوں کو بند رکھیں، گناہ کانوں کے راستے روح میں در آتے ہیں

جو بولتا ہے، وہ کرتبی ہے، جو سن رہا ہے، وہ مطلبی ہے

میں روحِ اعلیٰ کا نوحہ خواں ہوں

اسی طرح یہ کتاب کئی خوبصورت لہجے کی الواح سے مزین ہے، جیسا کہ یہ چند اقتباسات ملاحظہ کیجیے۔

مجھے قلم دو کہ میں تمہیں اِک کتاب لکھ دوں

تمہاری راتوں کے واسطے اپنے خواب لکھ دوں

کتاب جس میں ہدایتیں ہیں

کتاب جس میں تمہارے امراض کی شِفا ہے

مجھے قلم دو

مجھے قلم دو


میں آگیا ہوں، خدا کا بھیدی، تمہاری بستی میں آگیا ہے

میں آدمی اور خدا کے بیچ اِک بچولیا ہوں


میں جہلِ اعلیٰ کا مدّعی ہوں

میں جاننے اور نہ جاننے کے تمام اعراض سے بری ہوں

مگر یہ مجھ سے کبھی نہ ہوگا کہ میں وہ پَرخاش بھول جاؤں

جو میرے اور میرے جہلِ اعلیٰ کے درمیاں دُھول اڑ رہی ہے


مرے اِدھر ہی نہیں اُدھر بھی، مرے وَرے ہی نہیں پرے بھی

جو دیکھنے اور دکھائی دینے میں ہے (وہ جو بھی ہے) میرا قاتل ہے

اور میں ہوں جو ہر طرف قتل ہو رہا ہے

مرے جنازے اٹھائے جا رہے ہیں، میرے کاندھوں پہ لائے جا رہے ہیں

کہاں کہاں دفن ہو رہا ہوں


میں سو رہا ہوں، میں جوں ہی جاگا اور آنکھ کھولی تو دیکھتا ہوں

کہ میرے سینے پہ شہر تعمیر ہوچکا ہے


میں اپنے سینے میں جَل رَہا ہوں

میں اپنی آنکھوں میں بُجھ رہا ہوں

راموز کسی کے لیے ایک دیوانے کی بڑ ہوسکتی ہے تو کسی کے لیے دیوانگی کا دیوان، لیکن ایک بات طے ہے کہ اس میں موجود ندرت اور بیانیے کی ہنرمندی سے منہ نہیں موڑا جاسکتا۔ اس کے مصرعے قارئین کا دل موہ لیں گے۔ اس کے متصورانہ فن پارے اہل نظر کو حیران کر دیں گے اور رہ گئے جون ایلیا کے تخلیقی عاشق، تو ان کا ذہن اور زبانیں گنگ رہیں گی کیونکہ اس کتاب میں ان کے لیے فکر کے خزینے بکھرے ہوئے ہیں جنہیں سمیٹنے میں کئی دہائیاں صرف ہوں گی۔

اس شاندار کاوش کے لیے اس کتاب کے مرتب کنندہ خالد احمد انصاری، ان کے معاون اور ماہر لسانیات شکیل عادل زادہ، ناشر صفدرحسین، مصور دانش رضا اور اس کتاب میں خطاطی کے فن کا مظاہرہ کرنے والے باصلاحیت خطاط محمد مختارعلی سمیت وہ تمام احباب جن کا کسی نہ کسی طرح سے اس کتاب سے تعلق بنتا ہے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔

انتہائی معیاری آرٹ پیپر پر چھپی ہوئی 133 صفحات پر مشتمل کتاب کی قیمت 500 روپے انتہائی مناسب ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں ادبی آمریت کا دور دورہ ہو، جہالت اپنے عروج پر ہو، وہاں ایسی کتاب کا شایع ہونا ایسا ہی ہے جیسے پیاسے کو امرت مہیا کردیا جائے۔

یہ کتاب پڑھیے اور سر دھنیے۔ یہ اپنی تاریخ خود رقم کرے گی۔


بلاگر فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

خرم سہیل

بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔