شناختی کارڈ کی تجدید کا اشتعال انگیز سوالنامہ
میں ایک بزرگ شہری ہوں جو اپنی زندگی کی 6 دہائیاں دیکھ چکا ہے۔ ان 6 دہائیوں میں میں نے مختلف کاموں کی وجہ سے سرکاری دفاتر کے لاتعداد چکر لگائے ہیں مگر مجال ہے کہ سرکاری بابوؤں کا رویہ اور سرکاری دفاتر کا حال اتنے سالوں میں تبدیل ہوا ہو۔
مجھے ایک سم بند کروا کر نئی سم لینی تھی کیونکہ میں جہاں کام کے لیے جاتا ہوں، وہاں تہہ خانے میں سگنل نہ ملنے کی شکایت دور نہ ہوسکی تھی، اور زیادہ تر لوگ مجھے میرے موبائل پر ہی رابطہ کرتے مگر میں ان سے روزانہ کئی کئی گھنٹے رابطہ نہ کر پاتا۔
یہ ایک اہم مسئلہ تھا جس کے لیے شناختی کارڈ درکار تھا، اور میرا قومی شناختی کارڈ کچھ دن قبل ہی اپنی مدت پوری کر چکا تھا، لہٰذا زائد المیعاد کارڈ کی تجدید ضروری تھی۔
میں نادرا کراچی کے نارتھ ناظم آباد بلاک ڈی میں واقع دفتر پہنچا اور وہاں پر کارڈ کی تجدید کا فارم پر کر کے دے دیا۔ مجھے کہا گیا کہ تجدید شدہ قومی شناختی کارڈ 35 دن کے بعد یہیں سے وصول کر لیجیے گا۔
35 روز گزر جانے کے بعد میں اسی دفتر کی اسی کھڑکی پر پہنچا۔ مجھے بتایا گیا کہ 6 نمبر کاؤنٹر پر رسید دکھا کر اپنا کارڈ لے لیں۔ 6 نمبر کی کھڑکی پر پہنچا تو ایک صاحب کھڑے تھے، میں ان کے پیچھے کھڑا ہوکر اپنی باری آنے کا انتظار کرنے لگا۔
میرے آگے والے صاحب اپنا کام کروا کر چلے گئے تو میں کھڑکی پر آیا۔ دیکھا تو اندر ڈیوٹی پر کوئی نہیں تھا، اگلے صاحب کا کام کرنے کے ساتھ ہی 'صاحب' بھی کرسی سے چلے گئے تھے۔ ساتھ ہی خواتین کی کھڑکی بھی تھی وہاں بھی اندر کوئی ڈیوٹی افسر موجود نہیں تھا۔ ابھی چند منٹ ہی ہوئے ہوں گے، اندر سے آواز سنائی دی کہ خاتون افسر بڑے افسر کے پاس کام سے گئی ہیں، انتظار کریں۔
انتظار کوئی معنی نہیں رکھتا تھا اس کے مقابلے میں کہ میری شناخت مجھے واپس ملنے والی تھی اور میں پاکستان کا باعزت شہری کہلانے کا حق دار ہونے والا تھا۔ یہ تو شکر ہے کہ ان 35 دنوں کے دوران کسی پولیس والے نے مجھ سے راہ چلتے میری شناخت پر سوال نہیں کیا۔
کراچی کے حالات ویسے بھی کنٹرول میں کم رہتے ہیں۔ رات گئے گھر واپس آتے بھی کسی رینجرز موبائل کا سامنا نہ ہوا، یہ بھی شکر ہے کسی ٹریفک اہلکار سے بھی منہ ماری نہیں ہوئی۔ ہم خود بھی گھر سے نکلتے وقت خصوصی دعاﺅں کا اہتمام کیا کرتے ساتھ ہی گھر والوں کو بھی تاکید کر دیا کرتے ہیں۔
خیر کافی دیر بعد خاتون کرسی پر براجمان ہوئیں، ہم نے خوشی خوشی رسید دی۔ کچھ دیر بعد بتایا گیا کہ آپ 7 نمبر والی کھڑکی پر جائیں آپ کی درخواست میں کچھ کاغذات کم ہیں۔
میں نے کہا میرا اصلی شناختی کارڈ تک تو آپ لوگوں نے رکھ لیا تھا، اور کون سے کاغذات درکار ہیں؟ جو فارم آپ لوگوں نے پر کروایا تھا اس میں تو تمام معلومات تو پہلے سے موجود ہیں، پھر یہ کیا مسئلہ ہے؟
رسید لوٹا دی، کہا آپ وہاں جائیں۔
7 نمبر پر قطار لگا کر باری کا انتظار کیا۔ گاڑیوں کا ٹیکس جمع کروانے جاﺅ تو محکمہ ایکسائز والوں نے بزرگوں کے لیے الگ کھڑکی بنا رکھی ہے، مگر نادرا تو ہر ایک کو قطار میں کھڑا کر کے گھنٹوں پریشان کرنے کا عادی ہے۔
میری باری آئی تو خاتون نے کمپیوٹر پر کوائف دیکھے، پھر فائلوں میں میرا فارم ڈھونڈنے لگیں۔ کئی فائلیں دیکھ لیں۔ جب کچھ نہ ملا تو آفس کے چپڑاسی سے ایک فارم منگوایا اور مجھے دیا کہ یہ بھر کر لے آئیں، ساتھ میں اپنی کسی خونی رشتے دار، والد والدہ، بہن بھائی، یا بیٹا بیٹی کو لے آئیں، ان کے انگھوٹے کا نشان لیا جائے گا۔
میں نے کہا کہ سارا ریکارڈ تو آپ لوگوں کے پاس ہی ہے، اہلیہ بیٹوں اور والد کا، بھی پھر کیا ضرورت؟ میرے شناختی کارڈ کے فارم پر ساری تفصیل آپ لوگوں کے پاس محفوظ ہے۔
ڈیوٹی افسر نے کہا کہ اوپر سے احکامات ہیں آپ فارم بھر کر لے آئیں اور اپنے خونی رشتے دار کو ساتھ لے آئیں 3 بجے تک آفس ٹائم ہے ورنہ صبح لے آئیں۔
فارم دیکھا تو دماغ چکرا کر رہ گیا۔ نانا نانی کا نام؟ دادا دادی کا نام؟ ان کا تعلق کس علاقے سے تھا؟ والدین کا تعلق کس علاقے سے ہے؟ بھائی بہنوں کی تعداد؟ خونی رشتے داروں میں سے کوئی سرکاری ملازم رہا ہے؟ (اگر ہاں تو اس کا نام، سرکاری ادارے کا نام، عہدہ، نیز فارم کے ساتھ سروس کارڈ کی فوٹو کاپی، یا ریٹائر ہو چکا ہے تو پنشن بک بھی فارم کے ساتھ منسلک کریں)۔ لیجیے اب نیا مسئلہ۔
نادرا کو یہ معلومات پاکستان کے ایک عام شہری سے درکار ہیں۔ سر آنکھوں پر کہ ہر محکمے کا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے، مگر کیا 1950 سے قبل پیدا ہونے والا پاکستانی یہ سب درست طور پر بتا سکے گا؟
میرا نہیں خیال، کیونکہ جیسے میری والدہ بچپن میں 1965 میں انتقال کر گئی تھیں، والد بھی 1998 میں نہیں رہے، تو نانا نانی کا تذکرہ گھر میں کون کرتا جب بزرگ ہی نہ ہوں؟ عرصہ گزر گیا کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی کہ دادا دادی کا نام روزمرہ استعمال میں آ سکے، اب ننہیال ددھیال کا ایسا کوئی بزرگ بھی نہیں جو درست معلومات دے سکے تو کیا پھر مجھے میری شناخت نہ مل سکے گی؟
چونکہ میرے نانا نانی دادا دادی کا زمانہ پاکستان بننے سے بہت پہلے کا ہے، اس لیے ان کے پاس تو کوئی شناختی دستاویزات وغیرہ تھیں ہی نہیں اور نہ ہی ان کا کوئی ریکارڈ کہیں موجود ہے۔
بالفرض نادرا کو یہ معلومات فراہم کر بھی دی جائیں تو وہ ان کی تصدیق کیسے کرے گا؟ اور اگر تصدیق نہیں ہو سکتی تو ایسے سوالات پوچھنے کا فائدہ؟
سرکاری دفاتر سے متعلق مزید دلچسپ مضامین
- پاکستان میں پاسپورٹ کی تجدید کا تلخ تجربہ
- بلاک شناختی کارڈ کھلوانے کا اذیت ناک تجربہ
- کیا پینشنر ایسے ہی دھکے کھاتے رہیں گے؟
پہلا شناختی کارڈ بنوانے سے لے کر اب تک جو بھی معلومات مانگی گئیں، وہ سب فراہم کر چکے ہیں، میرے بچوں اور میرے بہن بھائیوں کا پورا ریکارڈ نادرا میں محفوظ ہے، مگر ماضی بعید کی معلومات میں کہاں سے لاؤں؟ میرے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں ہے جو مجھے یہ بتا سکے کہ میرے دادا کس علاقے سے تعلق رکھتے تھے اور میری دادی کہاں سے۔
پریشان کن بات یہ ہے کہ جب میں نے ابتدائی طور پر فارم جمع کروایا تھا، اس وقت کسی نے مجھ سے یہ معلومات طلب نہیں کی تھیں۔ 35 روز تک انتظار کرنے کے بعد جب ایک ملازمت پیشہ شخص دفتر سے چھٹی لے کر نادرا آفس کی قطاروں میں گھنٹوں کھڑا رہے، اس کے بعد اس سے یہ بے ہودہ سوالنامہ پر کرنے کے لیے کہا جائے، تو کس انسان کو غصہ نہیں آئے گا؟
کیا دوسرے ممالک میں بھی ایسی تمام معلومات لی جاتی ہیں؟ کیا یہ آئین اور قانون کے مطابق ہے؟ کون سی شق اور دفعہ ہے جو عام آدمی کو پتہ نہیں؟ اور اگر یہ معلومات اتنی ہی ضروری ہیں تو پہلے ہی کیوں نہیں بتا دیا گیا؟
اب کوئی خونی رشتے دار کیونکر سروس کارڈ یا پنشن بک دے گا کہ جناب کو شناختی کارڈ جاری ہوسکے۔ اس طرح کی معلومات یا ریکارڈ کا تقاضہ سوائے عام شہریوں کو پریشان کرنے کے اور کچھ نہیں۔
وزارتِ داخلہ آن لائن شناختی کارڈ و پاسپورٹ کی تیاری اور ہوم ڈلیوری تک کے اقدامات اٹھا رہی ہے، مگر اس کا کوئی فائدہ تب تک نہیں ہوگا جب تک کہ ان مراحل کو بنیادی طور پر سب کے لیے آسان نہیں کیا جاتا۔
بہرحال، کسی نہ کسی طرح فارم پر کر کے جمع کروا دیا تو اب کہا گیا ہے کہ پھر 35 روز بعد پتہ کریں۔ میری شناخت لاپتہ ہوگی یا ملے گی، میں اس حوالے سے دو ماہ سے غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوں۔
اس دوران میں صرف دعائیں کر رہا ہوں کہ راستے میں کہیں پولیس یا رینجرز سے واسطہ نہ پڑ جائے، ورنہ 90 دن تو کہیں نہیں گئے۔
کیا آپ بھی سرکاری دفاتر میں ایسی ہی صورتحال کا سامنا کر چکے ہیں؟ اپنی رائے نیچے کمنٹس میں دیجیے۔
محمد اجمل خان صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔