عبدالستار ایدھی کراچی میں چائلڈ کیئر سینٹر میں دو یتیم بچوں کو تھامے ہوئے ہیں — اے پی
میری والدہ کو یاد ہے کہ جب ایدھی صاحب کو پتا چلا کہ میری والدہ دست شناسی میں دلچسپی رکھتی ہیں تو وہ کسی بچے کی طرح خوش ہوگئے تھے۔ وہ دیکھنا چاہتی تھیں کہ ایسی شخصیات کی ہاتھوں کی لکیریں کیسی ہوتی ہیں جو اپنی پوری زندگی دوسری کا خیال رکھنے میں گزار دیتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ والدہ آفس اسٹیمپ پیڈ کی عام سیاہی سے ایدھی صاحب کے ہاتھوں کا پرنٹ بنا کر گھر لے آئی تھیں۔ ان کے پاس اب بھی وہ ہاتھوں کے نشان کہیں نہ کہیں پڑے ہیں۔
میں نے اگلی بار ایدھی صاحب کا ذکر تب سنا جب میری والدہ اپنی قریبی دوستوں کے لیے بچہ گود لینے کے سلسلے میں ان دونوں (کیونکہ بلقیس اور عبدالستار ایدھی ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم تھے) کے پاس گئی تھیں۔
میری والدہ نے مجھے دو ایدھی ڈرائیوروں کے بارے میں بتایا جنہیں اس دن ایدھی صاحب نے میری والدہ کے سامنے ہی نوکری سے نکال دیا تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ڈرائیور جس بستی میں کھانا پہنچانے گئے تھے وہاں انہوں نے ان غریبوں کے ساتھ ہی کھانا کھایا تھا۔
ایدھی صاحب نے ان سے کہا، ''آپ کو تنخواہ دی جاتی ہے، آپ کو اس پیسے میں سے کھانا چاہیے، یہ کھانا آپ کے لیے نہیں ہے۔''
اس وقت میرے ذہن میں یہ دونوں کسی دوسری دنیا کی مخلوق معلوم ہوئے۔ آخر کوئی شخص کیسے خود کو ان لوگوں کی خوشیوں اور بہبود کے لیے وقف کر سکتا ہے جنہیں وہ جانتا بھی نہیں؟
کراچی کا مصدقہ ترین اطلاعاتی ذریعہ
جب میں نے صحافت کی دنیا میں قدم رکھا تب کسی بھی سانحے کے نتیجے میں ایدھی ہی آسان رساں ذریعہ ہوتے تھے۔ کراچی ہنگامہ آرائی کی زد میں تھا، فوجی آپریشن جاری تھا، دائیں بائیں لوگ مر رہے تھے۔ کبھی کبھار کوئی عمارت منہدم ہوجاتی تھی۔
سب سے آسان ترین کام یہی ہوتا تھا کہ ایدھی سے رابطہ کر لیا جائے کیونکہ وہ ہمیشہ دستیاب ہوتے تھے، اور سرکاری اعداد و شمار کی تصدیق یا درستی کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے۔
زیادہ تر صحافیوں کے پاس ایدھی سینٹر کا نمبر اسپیڈ ڈائل پر درج ہوتا تھا۔ ہر کوئی ایدھی کے ہی اعداد و شمار پر بھروسہ کرتا تھا کیونکہ وہ ایدھی اور ان کے رضا کار ہی ہوتے تھے جو ملبہ ہٹاتے، ایدھی ایمبولینسوں میں زخمیوں اور لاشوں کو اٹھاتے، اور اکثر وہی ان کو دفناتے بھی تھے۔
1997 میں میری ایدھی صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی۔ اس وقت میں ایک ویڈیو پر کام کر رہا تھا، اور ویڈیو کے کچھ حصوں کے لیے ان کی شوٹنگ کرنے کی اجازت چاہتا تھا۔
وہ شروع میں تو ہچکچائے — ان کچھ لوگوں کے بالکل برعکس جو سماجی بھلائی کا کام کرتے ہیں مگر تصاویر کھنچوانے کے لیے ہر وقت بے قرار رہتے ہیں۔
میں انہیں فلمبند کرنا چاہتا تھا لیکن وہ چاہتے تھے کہ میں ان کے کارکنان اور ان کے سینٹرز کو فلمبند کروں۔ بالآخر ہم اس سمجھوتے پر پہنچے کہ میں دونوں کو ہی فلمبند کروں گا۔
وہ انتہائی ہیجان انگیز شوٹ تھا کیونکہ ایدھی کو ہمارے ترتیب دیے ہوئے شیڈولز پر عمل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ اپنے معمول کے مطابق اپنا کام کرتے تھے اور اگر ہم انہیں فلمبند کرنا چاہتے تو ہم ان کے ہمراہ چل سکتے تھے۔ میں زیادہ سے زیادہ انہیں میٹھادر کی سڑکوں اور گلیوں میں ہی فلمبند کرسکتا تھا جہاں ان کا آفس بھی واقع تھا۔
ان گلیوں میں لوگ ان کو دیکھ کر بے ساختہ انداز میں ہاتھ پیشانی پر لے جا کر سلام کرتے یا ان سے گلے ملنے آجاتے۔ لیکن وہ ان کا کم ہی جواب دیا کرتے تھے۔
شوٹنگ کے دوران، فارغ وقت میں جب ہمارا عملہ آرام کر رہا ہوتا یا کھانا کھا رہا ہوتا تھا تو میں ان کے ساتھ بیٹھتا اور باتیں کرتا تھا۔ ان بے تکلف باتوں کے دوران میں نے ان میں ایک حقیقت پسند انسان دریافت کیا تھا۔
وہ اپنے کام میں اور ارد گرد کئی ساری مصیبتیں اور بے انتہا بے حسی دیکھ چکے تھے مگر ان میں سے کوئی چیز ان کے لیے حوصلہ شکن ثابت نہیں ہوئی۔
وہ غربت کے بارے میں مدر ٹریسا کے رومانوی خیالات سے متاثر نہیں تھے اور نہ ہی وہ ایسی مذہبی ذہنیت تک محدود تھے کہ ہر چیز 'خدا کی مرضی' کہہ کر چھوڑ دیتے۔ وہ تمام چیزوں کے عملی جوابات رکھتے تھے اور اپنے خیالات کے بارے میں بہت واضح تھے — معاشرے میں سب سے زیادہ حقوق سے محروم اور سب سے زیادہ نظرانداز طبقے کے لیے دہائیوں تک کام کرتے رہنے نے ہی ان واضح خیالات کو جنم دیا تھا۔
بلکہ، اگر ایسی کوئی بھی چیز تھی جس نے انہیں تلخ بنایا تھا تو وہ مولوی تھے جنہوں نے لفظی تشریحات کے نیچے مذہب کی روح کو دفن کر دیا تھا۔ وہ کئی بار اس بات پر افسوس کر چکے تھے کہ مذہبی گروہ دوسرے لوگوں کے لیے صرف مسائل پیدا کرنے کا باعث بنے ہیں اور کبھی بھی ضرورت مندوں کی مدد نہیں کی۔
پھر انہیں اچانک یہ بات یاد آتی کہ کس طرح ان کے ایسے بیانات سے ان کا کام متاثر ہو سکتا ہے لہٰذا اپنی بات ختم کرتے ہوئے مجھ سے کہتے کہ انہوں نے مجھ سے جو کچھ کہا ہے، میں اسے عوامی سطح پر کبھی نہ دہراؤں۔ میں نے بھی زیادہ تر ان باتوں کا ذکر نہیں کیا۔
کتنی عجیب بات ہے نا کہ ان کو عام طور پر 'مولانا' کے نام سے پکارا جاتا تھا جبکہ ان کے پاس مذہبی رسومات کی ادائیگی کا وقت ہی نہ تھا۔ بعض اوقات وہ غیر مذہبی لگتے تو کبھی ایک پکے سوشلسٹ، حالانکہ انہوں نے خود کو اسلام کے بہترین تقاضوں کے مطابق ڈھالا ہوا تھا۔
بلقیس ایدھی — ایک بھرپور ساتھ
بلقیس ایدھی کے ذریعے میں ان کی ذات کے ایک الگ رخ سے آشنا ہوا۔ ان کے لیے ایدھی صاحب ایک ضدی، کبھی کبھار خیال نہ رکھنے والے شوہر تھے جنہیں اپنے گھر سے زیادہ دفتر کی فکر رہتی تھی۔
بلقیس ایدھی کو فلمیں دیکھنے میں بہت دلچسپی تھی لیکن وہ ان کے ساتھ فلمیں دیکھنے کبھی نہیں گئے۔ وہ کبھی کبھی تلخ بھی ہوجاتی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح ایک بار ان کا اپنا نواسا جل کر ہلاک ہوگیا تھا لیکن وہ اس وقت بھی کسی اور جگہ لاشیں اٹھانے چلے گئے تھے۔