نقطہ نظر

سفر ہے شرط: ترک سفارت خانے سے ترکی تک

ہمارے ساتھ موجود لیتھوینیا کا باشندہ اس شش و پنج میں تھا کہ ہندوستان و پاکستان آخر امن سے کیوں نہیں رہ سکتے؟

لڑکپن میں مستنصر حسین تارڑ صاحب کا 'خانہ بدوش' پڑھا تو ان کے نقش قدم پر رک سیک اٹھا کر افغانستان کے راستے یورپ دیکھنے کے خواب دیکھنا شروع کردیے۔ بین الاقوامی حالات کے باعث یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا اور ہم (تادم تحریر) یورپ کو محض استنبول کے ساحل سے ہی دیکھ چکے ہیں۔

کہاں وہ دن کہ تارڑ صاحب ہچ ہائیکنگ کرتے برطانیہ جا پہنچتے اور کہاں یہ دور کہ پڑھائی، کاروبار یا کانفرنس کے علاوہ یورپ کا ویزا ملنا محال ہے۔ ہم بھلا ہمت ہارنے والے کب تھے، سوچا بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی، تو نہیں ترا استعارہ ہی سہی۔

آخر ترکی ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور کئی صدیوں تک یورپ کے ایک وسیع علاقے پر حکومت کر چکا ہے، کچھ تو مختلف دیکھنے کو ملے گا۔ خدا شکر خورے کو شکر دیتا ہے، اور اسی طرح ایک دن ہمیں بیٹھے بٹھائے ترکی میں منعقد ہونے والے ایک کانفرنس کا دعوت نامہ موصول ہوا۔

زمانہ طالب علمی کا آفتاب غروب ہوئے کچھ ہی مہینے ہوئے تھے اور بیروز گاری کا موسم چل رہا تھا، کانفرنس میں شرکت کے لیے مطلوبہ رقم موجود نہ تھی۔ پہلے منتظمین سے منت سماجت کی اور وظیفے کی درخواست دی جو نامعلوم وجوہات کی بنا پر منظور نہ ہوئی۔ بادل ناخواستہ والد صاحب کے آگے دست فریاد پھیلایا اور اس طرح وسائل کا بندوبست ہوا۔

اگلا مرحلہ ترکی کا ویزا حاصل کرنا تھا۔ ہم اسلامی بھائی چارے اور تحریک خلافت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خیر سگالی کی امید آنکھوں میں سجائے اسلام آباد پہنچے اور ترک سفارت خانے کا قصد کیا۔

صبح آٹھ بجے ہم سفارت خانے کے کمرۂ انتظار میں براجمان تھے۔ معلوم ہوا کہ جو ویزا فارم ہمارے پاس موجود ہے، وہ تبدیل ہو چکا ہے لہٰذا نیا فارم بھرا جائے (خدا لگتی کہوں تو فرق انیس بیس سے بھی کم ہی تھا)۔

فارم بھرا، کاغذات کی از سر نو چھانٹی کی اور انتظار کا دامن پھیلا کر بیٹھ گئے۔ ایک صاحب نے متوجہ کیا کہ ہمارے پاسپورٹ کی فوٹو کاپی درست نہیں ہے لہٰذا نئے سرے سے فوٹو کاپی کروائی جائے۔ جو احباب اسلام آباد کے سفارتی علاقے (Diplomatic Enclave) سے واقف ہیں، وہ جانتے ہوں گے کہ وہاں عام دکانوں کی قلت کے باعث فوٹو کاپی جیسی نعمت کے حصول کے لیے کافی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔

ڈپلو میٹک انکلیو کی جانب جاتی سڑک — آئی این پی/فائل

ہم بھٹکتے بھٹکاتے ایک بینک کی عمارت میں جا گھسے اور مسکین سی شکل بنا کر فوٹو کاپی کا تقاضا کیا جو کہ بفضل خدا پورا ہو گیا۔ کمرۂ انتظار میں موجود سب افراد کو ان کی آمد کے وقت کے مطابق نمبر مل گئے تھے۔ پہلے درخواست کنندہ کی باری ساڑھے نو بجے آئی اور ہم انتظار کی گھڑیاں گننے میں مگن رہے۔ موبائل ہمراہ لے جانے کی ممانعت ہے لہٰذا ’بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے‘ کی عملی تصویر بنے رہے۔

اس روز کسی اسکول یا کالج کے طلبہ کا ایک گروپ بھی ویزا کے حصول کی خاطر آیا ہوا تھا اور ان کو ہم پر فوقیت دی گئی۔ اللہ اللہ کر کے ایک بجے کے قریب بلاوا آیا۔ ہم وارفتگی کے عالم میں سفارت خانے کی عمارت میں داخل ہوئے۔

انٹرویو کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے کے باعث ہمیں ویزا کی درخواست کے ساتھ اپنی ڈگری بھی نتھی کرنی پڑے گی اور اپنی صحت کی درستگی کا سرٹیفیکٹ بھی لگانا پڑے گا۔ ارمانوں پر وہ اوس پڑی کہ لاہور کا ماڈل ٹاؤن پارک یاد آنے لگا۔

ترکی اور یورپ کے متعلق بُنے خواب اون کے گچھے کی مانند بکھرنے لگے۔ بہرحال صبر کیا اور خالی ہاتھ گھر لوٹے چونکہ کانفرنس شروع ہونے میں ابھی ڈیڑھ مہینہ باقی تھا۔ ایک ہفتے میں اپنے تمام کاغذات مکمل کرنے کے بعد اسلام آباد لوٹے اور اعادہ کیا کہ اب پہلی دفعہ کی غلطیاں نہیں دہرانی۔

پاسپورٹ کی درجنوں کاپیاں ساتھ رکھ لیں، نیا فارم پچھلی دفعہ ہی لے آئے تھے، ڈگری کی کاپی موجود تھی اور صحت کے متعلق ایک کاغذ بھی رکھ لیا تھا۔

سفارتی علاقے میں کسی بھی سفارت خانے تک جانے کے لیے ایک مخصوص جگہ پر اپنی سواری ترک کر کے ایک بس (شٹل) پر سوار ہونا ہوتا ہے اور یہ سلسلہ صبح سات بجے سے شام چار بجے تک جاری رہتا ہے۔

امریکا کے علاوہ دیگر سفارت خانے آٹھ بجے کے بعد کام شروع کرتے ہیں۔ ترک بھائی کم از کم ساڑھے نو بجے یہ زحمت گوارا کرتے ہیں۔ کمرۂ انتظار میں بیس سے پچیس افراد بیٹھ سکتے ہیں اور وہاں نہایت غیر آرامدہ کرسیاں موجود ہیں۔

ویزے کے طلب گار ساڑھے سات بجے سے آنا شروع ہوتے ہیں اور ایک آدھ گھنٹے میں کمرہ کھچا کھچ بھر جاتا ہے۔ انٹرویو کے بعد ہر روز بیس سے پچیس افراد ویزے کے حق دار ٹھہرتے ہیں اور انہیں شام کو بلا کر پاسپورٹ واپس کیا جاتا ہے۔

ایک ادنیٰ سا تکنیکی مسئلہ یہ ہے کہ شام کو آخری شٹل چار بجے چلتی ہے اور ترک سفارت خانے سے ویزا پانچ بجے کے بعد ملتا ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پہلی دفعہ درخواست دینے پر(تمام کاغذات کی موجودگی کے باوجود) ویزا نہیں ملتا۔

ہمیں بالآخر تیسرے چکر میں ویزا ملا۔ ہم ایک دوست کے ہمراہ ظہرانہ تناول کر رہے تھے کہ یک دم پاسپورٹ کا خیال آیا، کھانے پر الحمداللہ پڑی اور بگٹٹ دوڑ لگا دی۔ قریب ترین راستہ ’سیکورٹی‘ وجوہات کے باعث بند تھا لیکن ایک مہربان پولیس والے کی مہربانی کی بدولت چار بجنے سے کچھ منٹ قبل ہم شٹل کے اڈے پر موجود تھے اور کچھ ہی دیر میں سفارت خانے کی دہلیز پر۔

انتظار کی گھڑی نئے سرے سے شروع ہوئی۔ پانچ سے ساڑھے پانچ بجے تو پہلے امیدوار کو سندیسا بھیجا گیا۔ ہم آخر کار چھے بجے ترکی کے ویزے سمیت فاتحانہ انداز میں سفارت خانے سے نمودار ہوئے۔ ابھی عشق کے امتحان ختم نہ ہوئے تھے۔

پاسپورٹ پر ترکی کا ویزا لیے ہم سفارت خانے سے باہر نکلے تو انکشاف ہوا کہ آخری شٹل تو کب کی منزل پر پہنچ چکی ہے، اب انتظار کیجئے۔ اس وقت ’مشکلیں ہم پر اتنی پڑیں کہ آساں ہو گئیں‘ کا مطلب سمجھ آیا اور ہم دیگر درخواست کنندگان کے ہمراہ سڑک کنارے بیٹھ گئے۔ پہلی سواری میسر آئی تو کچھ ہی فاصلہ طے کرنے پر جواب دے گئی۔

اس اثناء میں ایک اور شٹل وہاں سے گزری اور ہم بمشکل سفارتی علاقے سے باہر نکلے۔ روانگی کا دن قریب تھا اور ہم نے حب الوطنی کے جذبے کے تحت پی آئی اے سے ٹکٹ خرید لیا تھا (یہ غلطی اس کے بعد کبھی نہیں دہرائی)۔ مقررہ وقت پر ہوائی اڈے تک پہنچے اور پہلے لاہور سے کراچی کی پرواز پر سوار ہوئے۔

’روشنیوں کے شہر‘ میں آٹھ گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔ خدا بھلا کرے ایک دوست کا جو رات کے تیسرے پہر ہماری دل جوئی کی خاطر ہوائی اڈے سے متصل فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کے باہر ہمارے ساتھ بیٹھا رہا۔ پو پھٹنے کی دیر تھی کہ ہمارا جہاز کراچی سے روانہ ہوا اور پانچ گھنٹے بعد استبول کے اتاترک ہوائی اڈے پر پہنچا دیا۔

پہلی دفعہ ترکی آئے تھے اور زبان سے ناواقف تھے لہٰذا استنبول میں واقع کچھ دور پار کے جاننے والوں سے استدعا کی تھی کہ ہمیں ایک دن کے لیے راہنمائی مہیا کریں۔

پہلے پہل تو ان سے رابطہ نہ ہو پایا لیکن کچھ تاخیر کے بعد وہ بھلے لوگ ہمیں سامان سمیت اپنے دفتر لے آئے۔ کانفرنس انقرہ میں منعقد ہونی تھی اور ہماری اطلاعات کے مطابق تاریخی مقامات تو سب استنبول میں موجود تھے۔ سیاحت کے شوق میں ہم کانفرنس سے ایک دن پہلے ٹپک پڑے تھے۔

استنبول کی مشہور سلطان احمد مسجد، جسے نیلی مسجد بھی کہا جاتا ہے. — کری ایٹو کامنز

سلطان احمد مسجد کا اندرونی منظر. — کری ایٹو کامنز

ہم اسی حسرت میں رہے کہ سیاحت کے لیے کب جائیں گے لیکن میزبان حضرت اپنی کاروباری سرگرمیوں سے دست بردار ہونے کو تیار نہ تھے (اس بھاگم دوڑ میں ہم نے استنبول کی میٹرو بس دیکھی جس کے گرد ایک ہو میو پیتھک قسم کا ’جنگلہ‘ بھی موجود تھا)۔ شام کے کھانے کے بعد ہمیں سلطان احمد اور استقلال اسٹریٹ دیکھنے کا موقعہ ملا۔

کئی برس استنبول میں گزارنے کے باوجود وہ تاریخی عمارات اور ان کی اہمیت سے کچھ خاص واقف نہ تھے اور ہم غصہ دبائے ان کی پیروی میں چلتے رہے۔

اگلی صبح نو بجے ہم انقرہ جانے والی بس میں سوار تھے۔ اس وقت تک پاکستان میں چلنے والی بسوں میں دوران سفر وائے فائے کی سہولت موجود نہ تھی اور ہمارے لیے یہ ایک نیا اور خوش آئند تجربہ تھا۔

بس کئی جگہ رکی اور لگ بھگ چھے گھنٹے بعد انقرہ کے اڈے پر پہنچی۔ وہاں ایک ٹیکسی ڈرائیور کو ٹو ٹی پھوٹی زبان میں سمجھا کر اپنی منزل یعنی پولیس اکیڈمی پہنچے۔

واضح رہے کہ ہمارا تعلق کبھی بھی پولیس کے ادارے سے نہیں رہا اور کانفرنس کا عنوان سفارت کاری سے متعلق تھا۔

انقرہ کا طائرانہ منظر۔ — فوٹو muratart/ShutterStock

بہرحال وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ابھی کمروں کے متعلق فیصلہ نہیں ہوا کہ کس کو کہاں ٹھہرایا جائے۔ لابی میں ایک ہندوستانی اور ایک لیتھوینیا سے تعلق رکھنے والے صاحب بیٹھے تھے، ان سے تعارفی کلمات کے بعد خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے۔

کچھ دیر بعد معلوم ہوا کہ فی کمرہ تین افراد قیام کریں گے، ہمارے ساتھ ایک برطانوی نژاد پاکستانی اور ایک ویسٹ انڈیز کے باسی کو کمرہ الاٹ ہوا۔ سامان کمرے تک پہنچایا اور واپس لتھوینیا کے ’اینڈی‘ سے بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا۔

وہ بیچارہ اس شش و پنج میں تھا کہ ہندوستان اور پاکستان جغرافیائی طور پر متصل ہونے کے باوجود ’امن‘ سے کیوں نہیں رہ سکتے۔

ہم نے حسب معمول کہانی اٹھارویں صدی سے شروع کی اور ایک گھنٹے بعد کارگل تک پہنچائی۔ اس الف لیلی کے باوجود وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ ایک ہی خطے میں رہنے والے انسان جو کئی صدیاں اکٹھے گزار چکے تھے، اب ایک دوسرے کی جان کے دشمن کیوں تھے۔

اس دوران مختلف ممالک کے لوگ ہوٹل پہنچ رہے تھے اور ہماری گفتگو ہر کچھ منٹ بعد تعارفی کلمات کی بدولت منقطع ہوتی رہی۔

انقرہ قلعہ۔ فوٹو muratart/ShutterStock

ہمارے پروگرام کے مطابق شام کو Reception نامی واقعہ ظہور پذیر ہونا تھا، جو کافی انتظار کے باوجود نہیں ہو پایا۔ ایک انگریز دوشیزہ سے وائے فائے کا پاس ورڈ معلوم کیا (کیونکہ ہوٹل عملے کو ترکی کے علاوہ کوئی اور زبان نہیں آتی تھی) تاکہ گھر والوں کو خیریت کی خبر پہنچائی جا سکے۔

شام تک تمام شرکا پہنچ چکے تھے لیکن منتظمین کی جانب سے کوئی اعلان نہیں ہوا تھا۔ اس اکیڈمی/ہوٹل میں اس روز شادی کی ایک تقریب بھی جاری تھی اور ہمارے کچھ رفقاء بن بلائے مہمان بن کر وہاں چل دیے۔

رات کے کھانے کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت ہم ٹیکسیوں میں ٹھنس کر قریبی بازار تک پہنچے اور دو مختلف ٹولیوں میں بٹ گئے۔ میری ٹولی میں دو عدد ہندوستانی دوشیزائیں موجود تھیں اور ہماری سبزی خوری کے باعث گفتگو کی راہ نکلی۔

ان میں سے ایک ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کر رہی تھی سو اس سے دکھ سکھ کا تبادلہ ہوا۔ ان دونوں کا تعلق ممبئی سے تھا۔ کھانے کے بعد باہر نکلے تو کسی بزرجمہر نے تجویز دی کہ ٹیکسی پر لیرا ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ پیدل ہی ہوٹل کی جانب چلا جائے۔

اس موقعے پر حاضرین دو ٹولیوں میں بٹ گئے اور کچھ لوگ ٹیکسی لے کر ہوٹل کی جانب چلے گئے۔ ہماری نئی نویلی ہندوستانی دوستیں اس گروہ کا حصہ تھیں۔ ہم اپنی مہم جو طبیعت اور پیدل چلنے کی عادت کے باعث دوسری ٹولی کا حصہ تھے۔ آدھا گھنٹہ ایک سمت میں چلنے کے بعد احساس ہوا کہ ’یہ وہ سحر تو نہیں کہ جس کی آرزو لے کر‘ چل نکلے تھے۔

عجیب سے ویرانے میں ٹہلتے ہم لوگ کہ جن کو ترکی زبان کا ایک لفظ بھی معلوم نہیں۔ آخر کار کسی رفیق کے سمارٹ فون کی مدد سے ہم ایک گھنٹے بعد ہوٹل پہنچے۔ اگلی صبح ناشتے کے بعد بسوں کا انتظار شروع ہوا تاکہ ہم لوگ باقاعدہ کارروائی کا حصہ بن سکیں۔

’یہ نہ تھی ہماری قسمت‘ کے مصداق بسوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ایک گھنٹہ انتظار کے بعد بس میں سوار ہوئے تو جگہ کم پڑ گئی اور کئی لوگوں کو کھڑے ہو کر سفر کرنا پڑا۔

اس موقعے پر ریلوے اسٹیشن لاہور سے ڈیفنس جانے والے ڈائیو کی پانچ نمبر بس بہت یاد آئی۔

(جاری ہے۔)

عبدالمجید عابد

لکھاری میڈیکل کے طالب علم ہیں اس کے ساتھ تاریخ، سیاسی معیشت اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ان کے بلاگز یہاں پڑھیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abdulmajeedabid@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔