عبدالستار ایدھی آئی آئی چندریگر روڈ پر کھڑے ہو کر اپنے سینٹر کے لیے عطیات اکٹھا کر رہے ہیں — تصویر عارف محمود/ وائٹ اسٹار
اس دوران میز پر رکھا فون ہر تھوڑی دیر بعد بجتا رہا اور کبھی وہ، تو کبھی ان کا عملہ شہر بھر میں ہونے والی مختلف ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے فوری ہدایات جاری کرتا رہا۔
باتوں باتوں میں ایک دوست نے کہا کہ آج چھٹّی تھی تو ہم نے ایمپریس مارکیٹ کی صفائی کی۔ پھر ہم نے سوچا کہ یہاں آجاتے ہیں۔
’’ایمپریس مارکیٹ میں کیا کِیا آپ لوگوں نے؟‘‘ ایدھی صاحب نے چونکتے ہوئے پوچھا۔
’’صفائی کی۔‘‘
’’کیسے؟ جھاڑو مارا کیا؟‘‘ ایدھی کی آنکھوں کی چمک دیدنی تھی۔
’’ نہیں، ہاتھوں سے کچرا اٹھایا تھا۔‘‘
یہ سُن کر ایدھی صاحب کے چہرے پر مسرّت کی ایک لہر دوڑ گئی۔ کہنے لگے، ’’یعنی آپ لوگوں نے پہلا قدم اٹھا لیا ہے!‘‘
پھر گجراتی زبان میں دفتر میں موجود ایک لڑکی سے کہنے لگے کہ اِن کو اوپر لے جاؤ، بچّوں سے ملوانے!
اب کی بار ہماری آنکھوں کی چمک دیدنی تھی۔
جب اوپر پہنچے تو ایک طرف بڑے بڑے تسلوں میں مرغی کا گوشت اور دال دھلنے کے لیے رکھی ہوئی تھی، سامنے دیوار پر "Happy Marriage"کا سجا ہوا بورڈ لگا ہوا تھا۔
ہمارے ساتھ موجود رضاکار لڑکی نے بتایا کہ کچھ دن قبل ہی ایدھی سینٹر کی ایک لڑکی کی شادی ہوئی ہے۔ آگے بڑھے تو چند شیر خوار بچّے سو رہے تھے۔ صفائی کا یہ عالَم کہ لگتا ہی نہیں تھا کہ اِس جگہ بچّے رہتے ہیں۔
دو کمروں میں بچّوں کی کلاسیں ہو رہی تھیں۔ چار، پانچ برس کے ننّھے ننّھے بچّے پڑھائی میں مشغول تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی وہ سب کھڑے ہو گئے اور باآوازِ بلند ’’السّلام علیکم‘‘ کا نعرہ لگایا۔ اس سے پہلے کہ ہم ان کے سلام کا اسی پُر جوش انداز میں جواب دے پاتے، وہ خود ہی "thank you" کہہ کر اپنی اپنی نشستوں پر براجمان ہو چکے تھے۔
عبدالستار ایدھی پر دیگر دلچسپ مضامین
- وہ میٹھادر کا باپو، عبدالستار ایدھی
- عبدالستار ایدھی: خدمت کے 60 سالہ سفر کا اختتام
- کوئز: آپ عبدالستار ایدھی کو کتنا جانتے ہیں؟
ہمارے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دینے والے یہ معصوم چہرے، جن کے پیچھے ایک سے بڑھ کر ایک بھیانک کہانیاں چھپی ہوئی تھیں۔
جب ہم نیچے اترے تو انہوں نے ہمیں اپنی آپ بیتی ’’A Mirror to the Blind‘‘ تحفتًا پیش کی، جس پر ہم نے بطورِ یادگار ان سے دستخط لے لیے، جو انھوں نے گجراتی زبان میں دیے۔ ساتھ ہی بتایا کہ اُن کی آپ بیتی اب انگریزی اور اردو کے علاوہ پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی اور عربی زبان میں بھی شائع ہو چکی ہے، ہم جس زبان میں چاہیں اِسے پڑھ سکتے ہیں۔
ہم نے اس لڑکی کی شادی کے البم بھی دیکھے جس کی کچھ دن قبل شادی ہوئی تھی۔ ابھی ہم البم دیکھ ہی رہے تھے کہ دروازے پر ایک سپیرا آ کھڑا ہوا اور کہنے لگا، ’’ایدھی صاحب، آج تماشا نہیں دیکھیں گے؟‘‘
ایدھی صاحب کہنے لگے، ’’ہاں بھئی، کیوں نہیں دیکھیں گے، ضرور دیکھیں گے ۔‘‘ یہ سن کرسپیرے نے اپنا تھیلا اور پٹاری نیچے رکھی اور بین بجانے لگا۔ میں نے زندگی میں پہلی بار سانپ کا تماشا ایدھی کے ساتھ دیکھا۔ سانپ کے ساتھ ساتھ ہمارے دل بھی جھومتے جا رہے تھے۔
ایدھی بتانے لگے کہ انھیں بین کی ’موسیقی‘ بہت اچھّی لگتی ہے۔
یہ وہی ایدھی تھے جن پر لوگوں نے ایسے ایسے الزامات لگائے کہ عقل حیران ہوتی ہے۔ گردے اور ہڈّیاں بیچنے سے لے کر لڑکیاں سپلائی کرنے تک کے گھناؤنے الزامات ایدھی کے گرد گھومتے رہے لیکن کبھی اُس جواں مرد کی ہمّت کو کبھی پست نہیں کر سکے، مددِ خدا جس کی ہمرکاب رہی۔
میں نے اپنی زندگی میں ایسا بے غرض اور مخلص انسان نہیں دیکھا۔ ایک ایسے شہر میں جہاں اپنا نقصان ہونے پر جلاؤ گھیراؤ اور ہڑتالیں اپنا حق سمجھ کر کی جاتی ہیں، وہیں ایک ایسا فرشتہ صفت انسان بھی بستا تھا جس نے اُس عورت کو بھی اپنے سینٹر میں پناہ دی جس نے ان کے چار سالہ نواسے بلال کو زندہ جلا دیا تھا، اِس بنا پر کہ وہ عورت ذہنی مریضہ تھی۔
اُس کے گھر والوں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا، اگر ایدھی بھی اُسے بے دخل کر دیتے تو وہ کہاں جاتی؟