عبدالستار ایدھی: خدمت کے 60 سالہ سفر کا اختتام
ایک ایسا ملک جہاں پر تنازعات سے پاک رہنا تقریباً ناممکن ہے، وہاں عبدالستار ایدھی کی کئی دہائیوں پر مبنی سماجی خدمت کا باب جب کل بند ہوا، تو بھی ان کی ذات تنازعات سے پاک تھی۔ انہیں ہمیشہ بے غرض ہو کر دوسروں کے لیے زندگی جینے کے لیے یاد رکھا جائے گا۔
ہندوستانی ریاست گجرات کے علاقے بانٹوا میں پیدا ہونے والے ایدھی 1947 میں ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ ان کے والد تاجر تھے اور کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ ایدھی نے بھی سوچا تھا کہ وہ بھی یہی کاروبار کریں گے۔
مگر پھر وہ فلاحی کارکن کیسے بنے؟ اخبارات کو اپنے انٹرویوز میں انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے اردگرد لوگوں کو تکلیف میں دیکھ کر بہت پریشان رہتے تھے کیونکہ انہی دنوں برِصغیر تقسیم ہوا تھا۔ ان کا خاندان کراچی کے جوڑیا بازار میں ایک کمرے کے گھر میں کرائے پر رہتا تھا۔ وہ جو کر سکتے تھے، انہوں نے کیا۔ انہوں نے میٹھادر کے صرافہ بازار میں ایک خیمہ لگایا، سول ہسپتال سے کچھ ڈاکٹرز کو بلوایا اور شہر کے فٹ پاتھوں پر 11 موبائل ڈسپنسریاں قائم کیں۔
آج اسی جگہ پر ایدھی سینٹر قائم ہے۔ وہ کوشش، جو ایک شخص نے دوسروں کا درد محسوس کر کے شروع کی تھی، آج دنیا کے سب سے بڑے فلاحی اداروں میں شامل ہے، اور جو بڑی حد تک عوامی عطیات پر منحصر ہے۔
ایدھی نے 1951 میں اپنی پہلی ڈسپنسری قائم کی، اور آہستہ آہستہ کراچی کے ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک اپنا کام بڑھاتے گئے۔ رفتہ رفتہ یہ سلسلہ نہ صرف ملک بھر میں، بلکہ ملک سے باہر بھی پھیل گیا۔
آج ایدھی فاؤنڈیشن درجنوں مفت ہسپتال، ڈسپنسریاں، یتیم خانے، نرسنگ ہوم، باورچی خانے، اولڈ ہومز، اور منشیات کے عادی افراد کی بحآلی کے سینٹرز چلاتی ہے۔ فلاحی کاموں میں قبرستان، مردہ خانے، اور ایمبولینسوں کا وسیع بیڑا شامل ہے جو کسی بھی دہشتگردی یا حادثے کی صورت میں سب سے پہلے جائے وقوعہ پر سب سے پہلے نظر آتی ہیں۔
ایدھی ورکرز نے مظاہروں، لسانی جھگڑوں اور جرائم پیشہ افراد کی آپسی لڑائیوں کے درمیان بھی بہادری سے کام کیا، بے سہارا بچوں کو سہارا دیا، لاوارثوں کی لاشیں اٹھائیں۔ صرافہ بازار میں ہیڈ آفس کے باہر جہاں ایمبولینس ڈرائیور کال کے منتظر رہتے ہیں، وہیں پر نشے کے عادی افراد بھی نظر آتے ہیں۔ ایدھی کے ڈرائیور صرف کراچی میں روزانہ 6000 ایمرجنسی کالز نمٹاتے ہیں۔
اپنی اہلیہ بلقیس، جو ان کی ڈسپنسری میں نرس تھیں اور جن سے انہوں نے 1966 میں شادی کی تھی، کے ساتھ مل کر ایدھی نے اس فلاحی تنظیم کو چلانے کا جذبہ فراہم کیا۔ عام طور پر اس طرح کے ادارے چلانے والے افراد خود انتظامی معاملات میں مصروف رہتے ہیں، اور میدانِ عمل میں نہیں رہ پاتے۔
لیکن ایسا ایدھی کے معاملے میں نہیں تھا۔ ہمیشہ ایک ہی طرح کے سادہ کپڑوں میں ملبوس ایدھی کو اکثر اپنی ایمبولینس کے کسی ڈرائیور کے ساتھ چندہ اکٹھا کرتے ہوئے دیکھا جاتا، یا پھر وہ اپنے کسی رضاکار کی خود مدد کرتے نظر آتے، پھر چاہے وہ کام کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو۔
انہوں نے جس زندگی کا انتخاب کیا تھا، اس کے لیے پہاڑ جیسا عزم درکار تھا۔ انہوں نے 2009 میں ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ 1965 کی جنگ، جس میں کراچی کے کئی علاقوں پر بمباری کی گئی تھی، نے انہیں وہ بنایا جو وہ آج ہیں: "[میری بیوی اور میں نے] عورتوں اور بچوں کی لاشیں اٹھائیں۔ میری بیوی نے عورتوں کو غسل دیا، اور میں نے باقی کا کام کیا۔ اس کے بعد میرا دل اتنا سخت ہوگیا کہ میں نے انسانیت کو اپنا مذہب بنا لیا اور اپنی زندگی اس کے لیے وقف کر دی۔"
ایدھی فاؤنڈیشن کی براہِ راست مداخلت کی وجہ سے گذشتہ 6 دہائیوں میں ہزاروں افراد کی امداد ممکن ہوپائی ہے۔ اس میں جس چیز پر کم سے کم بات کی جاتی ہے، وہ جھولے ہیں جو ایدھی سینٹرز کے باہر موجود ہوتے ہیں۔ ایدھی اور بلقیس کے لیے یہ خیال ہی خوفناک تھا کہ کچھ والدین اپنے بچوں کو کسی نہ کسی وجہ کی بنا پر یا مار دیتے ہیں یا مرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ ایدھی نے جھولے رکھے اور عوام سے کہا کہ وہ بچوں کو قتل کرنے کے بجائے ان جھولوں میں ڈالیں، کفالت ادارہ کرے گا۔ بعد میں بے اولاد جوڑے ان بچوں کو گود لیتے ہیں۔ اس ادارے نے ہزاروں بے اولاد افراد کو بچے گود لینے میں مدد کی ہے۔
مگر ایدھی صاحب براہِ راست مداخلت سے بھی کئی قدم آگے گئے۔ انہوں نے پٹیشن دائر کی کہ جن بچوں کے حقیقی والدین کے بارے میں معلومات نہ ہوں، انہیں قومی شناختی کارڈ کا حق ملنا چاہیے۔ اس پٹیشن کا فیصلہ عبدالستار ایدھی کے حق میں ہوا۔ کچھ سال قبل سندھ ہائی کورٹ نے انہیں حقیقی والدین کے معلوم نہ ہونے پر شناختی دستاویزات میں سرپرستوں کے ناموں کی شمولیت کے حوالے سے دائر کی گئی ایک پٹیشن کے قانونی نکات پر مشاورت کے لیے بھی طلب کیا تھا۔
ایدھی کبھی بھی اسکول نہیں گئے تھے، مگر انہیں 2006 میں انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن، کراچی کی جانب سے اعزازی ڈاکٹریٹ عطا کی گئی، جبکہ انگلینڈ کی بریڈفورڈ شائر یونیورسٹی نے 2010 میں انہیں اعزازی ڈگری عطا کی۔ انہوں نے انٹرویورز کو بتایا کہ انہیں جب بھی مطالعے کا موقع ملتا، تو وہ مارکسسٹ کتب اور انسانی حقوق پر مواد کا مطالعہ کرتے، جو ان کے لیے مذہبی حیثیت رکھتے تھے۔
اپنی زندگی میں انہیں کئی ملکی اور بین الاقوامی ایوارڈز دیے گئے اور کئی کے لیے نامزد کیا گیا۔ ایدھی فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ پر تحریر ناموں میں سے چند میں رامون میگسیسے ایوارڈ فار پبلک سروس (فلپائن، 198)، پال ہیرس فیلو (روٹری انٹرنیشنل فاؤنڈیشن، 1993)، اور 1988 میں آرمینیا کے زلزلے میں امدادی کاموں کے لیے سابقہ سوویت یونین کی جانب سے امن انعام شامل ہے۔
ملکی ایوارڈز میں نشانِ امتیاز (1989) اور دیگر کئی شامل ہیں۔ انہیں حکومت کی جانب سے نوبیل امن انعام کے لیے نامز کیا گیا، اور 2001 ٹپریری انٹرنیشنل پیس پرائز کے لیے بھی شارٹ لسٹ کیا گیا۔ 1996 میں ان کی خود نوشت 'اے مرر ٹو دی بلائنڈ' (نابیناؤں کے لیے آئینہ)، جو انہوں نے تہمینہ درانی کو سنائی تھی شائع ہوئی۔
بڑھتی عمر کے باوجود وہ اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک فاؤنڈیشن کے کاموں سے جڑے رہے، یہاں تک کہ تب بھی جب وہ 2013 سے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ میں زیرِ علاج تھے۔
کچھ معاشروں میں مانا جاتا ہے کہ جب تک کسی شخص کا کام زندہ رہے، اس شخص کو مردہ نہیں قرار دیا جا سکتا؛ جب تک اس کا لگایا ہوا درخت، یا اس کی اگائی ہوئی فصل قائم رہتی ہے، تب تک وہ شخص زندہ رہتا ہے۔ اگر اس طرح دیکھیں تو عبدالستار ایدھی بلاشبہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
ان کے پسماندگان میں بلقیس ایدھی، دو بیٹیاں اور دو بیٹے شامل ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 9 جولائی 2016 کو شائع ہوا۔