فلم ریویو سلطان : سلمان خان کی کہانی
مکسڈ مارشل آرٹس لیگ کے پروموٹر آکاس (امیت سدھ) کو ایک اسٹار فائٹر کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ انڈین ہو، جسے ان کے نئے ٹورنامنٹ کے لیے تیار کیا جاسکے۔ آکاش کا والد اسے مشورہ دیتا ہے کہ وہ دیکھے کے سلطان علی خان آج کل کیا کررہا ہے۔
سلطان (سلمان خان) اپنے علاقے ہریانہ کا سب سے مشہور پہلوان اور اولمپک گولڈ میڈل جیتنے کا اعزاز رکھتا تھا، مگر آج کل وہ کسی نامعلوم مقصد کے لیے پیسے اکھٹے کررہا ہے اور ایک مزار کے باہر کھڑا روزانہ اپنی محبوبہ عارفہ (انوشکا شرما) کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے کھڑا رہتا ہے۔
یہ محبت ہی ہوتی ہے جو ایک سابق کیبل ٹیلیویژن سپلائر کو مقامی کشتی کے اکھاڑے میں داخل ہونے پر مجبور کرتی ہے، محبت ہی اسے عارفہ کی ان نگاہوں میں روشن کرتی ہے جو پہلے اسے شک کی نظر سے دیکھتی ہیں، اور محبت ہی اسے ایک بار پھر گر کر اٹھنے اور ایک بار پھر رنگ کا بادشاہ بناتی ہے۔
اس بنیادی اور آسانی سے سمجھ آنے والے اسپورٹس ڈراما پلاٹ کی مدد سے و رائٹر و ڈائریکٹر علی عباس ظفر نے سلمان خان کو اب تک کے سب سے زبردست انداز سے پیش کیا ہے۔
سلطان کا ہرر فریم سلمان خان کے لاتعداد پرستاروں کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے جو کہ اسکرین سے باہر اپنے تمام تر تنازعات کے باوجود ہندی سینما کے کامیاب ترین اداکارون میں سے ایک ہیں، ڈائیلاگ جیسے " میں ایک منفرد شخص ہوں"، " میری اصل لڑائی اپنا احترام واپس حاصل کرنا ہے"، " مجھے طاقت الکحل نہیں بلکہ محبت سے ملتی ہے"، یقیناً سلمان خان کے چاہنے والوں کے دلوں کو بھائے ہوں گے۔
ماضی کے ایک طویل فلیش بیک میں انکشاف ہوتا ہے کہ کیسے سلطان کا عارفہ سے زندگی بدل دینے والا ٹکراﺅ ہوتا ہے، اور یہ پتا چلتا ہے کہ عارفہ سے رابطے کا پہلا ذریعہ ایک مکا بنتا ہے۔ ایک ہیلمٹ پہنے موٹرسائیکل سوار کے ساتھ سفر کے دوران سلطان اپنا مکا اٹھاتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ ہیلمٹ کے پیچھے چھپا چہرہ ایک بے باک نوجوان لڑکی کا ہے جو ایک ریسلر ہے۔
یہ بھی پڑھیں : ’سلطان’، پریم رتن دھن پایو کا ریکارڈ توڑنے میں ناکام
کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹرون اور ٹیچرز کو شادی کے لیے ایک دوسرے کو ترجیح دینا چاہئے تو ریسلرز کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئے، سلطان سخت تربیت حاصل کرکے اولمپک میڈل اپنے نام کرتا ہے۔
تاہم مکے سے شروع ہونے والی یہ محبت عارفہ کو مہنگی پڑتی ہے، ڈائریکٹر نے عارفہ کو سائیڈ لائن کے کے متعدد جواز پیش کیے ہیں اور اسے سلطان کے عزائم میں ایک رکاوٹ کے طور پر پیش کیا، مگر اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ بنیادی طور پر یہ فلم سلمان خان کی ہے۔
انوشکا شرما دیکھنے والوں کو بطور ریسلر اور سلطان کی زندگی کی خاص ہستی دونوں کرداروں میں قائل نہیں کرپائیں، بلکہ وہ تو وہ ایسی سیٹلائیٹ کی طرح نظر آتی ہیں جو سلطان کے پھیلتے محور کے گرد گھوم رہے ہوتے ہیں۔
اس اسکرین پلے کی متعدد خامیاں اس وقت نمایاں ہوجاتی ہیں اگر کسی اور اداکار کو مرکزی کردار کے لیے کاسٹ کیا جاتا، اگر 170 منٹ کے دورانیے میں سلطان دیکھنے والوں کی توجہ اپنی جانب حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے تو اس کی وجہ کردار انہیں بلکہ اسے ادا کرنے والا اداکار ہے۔
مرکزی کردار کی مقناطیسی کشش کچھ اداکاروں کو متاثر نہیں کرسکی جیسے سطلان کے سائیڈ کک گووند کا کردار ادا کرنے والے اننت شرما۔ رونے دھونے جیس عناصر کی خوشگوار کمی اور دیگر اوسط درجے کی فلموں سے زیادہ حقیقی نظر آنے والی فلم سلطان سلمان خان کے مخصوص اسلوب کی حامل ہے۔
یہ شاہ رخ خان کی فین کے بعد یش راج فلم پروڈکشنز کی رواں سال دوسری فلم ہے۔ مرکزی کردار نے افسانوی شخص کی حیثیت سے جیت لینے والی اداکاری کی ہے اور ایک خطرناک حریف کا سامنا کرتے ہوئے اس کے اندر اپنی نوجوانی کا ویژن موجود ہوتا ہے۔
جب سلطان رنگ میں داخل ہوتا ہے تو یہ نعرہ گونجنے لگتا ہے 'کر دے چت' اور یہ سینماﺅں پر بھی موزوں لگتا ہے جہاں اپنی زندگی اور کیرئیر کے دوران سلمان خان ابھرے، گرے اور ایک بار پھر عروج کی جانب گئے۔
اس سال ریسلنگ پر ایک اور بڑی فلم دنگل بھی ریلیز ہورہی ہے جو ہریانہ کے مہاویر سنگھ پھوبٹ کی زندگی پر مبنی ہے۔
اس کے مقابلے میں سلطان افسانوی کہانی ہے مگر اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ حقیقتاً سلمان خان کی زندگی کی کہانی ہے، ایک ایسا اسٹار جو تاریکی سے ابھر کر انتہائی چمکدار ستارے کی حیثیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔