دنیا

’برطانیہ کا عراق جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ غیر قانونی تھا‘

ٹونی بلیئر کا عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی والے ہتھیاروں کا بہانہ بلاجواز تھا، سربراہ انکوائری کمیشن جان چلکوٹ

لندن: عراق جنگ سے متعلق برطانیہ کی سرکاری انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ کا 2003 میں عراق کی جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ غیر قانونی تھا اور اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کا عراق میں فوجی کارروائی کا موقف جذباتی تھا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق انکوائری کمیشن کے سربراہ جان چلکوٹ نے کہا کہ عراق میں مسئلے کے حل کے لیے پرامن طریقوں کو موقع نہیں دیا گیا، جبکہ ٹونی بلیئر کی جانب سے عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی والے ہتھیاروں کے حوالے سے انٹیلی جنس کمیٹی کی معلومات کا بہانہ بلاجواز تھا۔

انہوں نے صحافیوں اور عراق جنگ میں ہلاک ہونے والے چند فوجی اہلکاروں کے لواحقین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مارچ 2003 میں صدام حسین سے برطانیہ کو فوری طور پر کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا، جبکہ ہتھیاروں سے درپیش خطرات کو جس سنجیدگی سے پیش کیا گیا تھا حکومت اسے ثابت کرنے میں ناکام رہی۔

اس لیے ہم اس نتیجے پر پہنچے برطانیہ کا عراق کی جنگ میں شامل ہونے اور وہاں فوجی کارروائی کا فیصلہ غیر قانونی تھا۔

اس موقع پر جان چلکوٹ نے عراق جنگ کے دوران اور بعد میں جن ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا، ان کی بھی نشاندہی کی۔

انہوں نے کہا کہ عراق پر حملے سے قبل ٹونی بلیئر کو حکومت کے سینئر وکلا سے مشورہ کرنا چاہیے تھا کہ آیا عراق نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قرارداد کی خلاف ورزی کی بھی ہے یا نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹونی بلیئر نے عراق جنگ میں شامل ہونے کا جن بنیادوں پر فیصلہ کیا وہ غیر واضح تھیں، جبکہ برطانوی وزیر اعظم نے عراق کے ہتھیار حاصل کرنے کے ارادے سے اپنی توجہ بڑے پیمانے پر غیر ملکی ہتھیاروں کی بجائے صدام حسین پر مرکوز کرکے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی۔

واضح رہے کہ 26 لاکھ الفاظ پر مشتمل یہ رپورٹ 7 سالوں میں مکمل کی گئی ہے۔