'عراق و شام میں 30 ہزار غیر ملکی جنگجو موجود'
جنیوا: اقوام متحدہ حکام کا کہنا ہے کہ شام اور عراق میں مختلف ممالک کے 30 ہزار ’جنگجو دہشت گرد' موجود ہیں۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے حکام نے ساتھ ہی خبردار کیا ہے کہ مذکورہ دہشت گردوں کی واپسی پر ان کے آبائی ممالک میں حملوں کا خدشہ بڑھ جائے گا۔
اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل اور انسداد دہشت گردی کمیٹی کے سربراہ جین پاول لوبارڈے کا کہنا تھا کہ 'جنگ زدہ علاقے شام اور عراق میں غیر ملکی جنگجو دہشت گردوں کی موجودہ تعداد بہت زیادہ ہے'۔
جنیوا میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'ان کی تعداد تقریبا 30 ہزار ہے، اور اب عراق میں داعش کے زیر قبضہ علاقوں میں کمی آرہی ہے، ہم انھیں واپس جاتے دیکھ رہے ہیں، یہ لوگ نہ صرف یورپ بلکہ تیونس اور مراکش میں بھی واپس جارہے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'دہشت گردوں کی جانب سے ان کے آبائی ممالک میں حملوں کا خدشہ بڑھ گیا ہے، تاکہ ان ممالک میں جوابی دباو بڑھایا جائے'۔
اقوام متحدہ کے عہدیدار نے ان ممالک پر زور دیا کہ واپس آنے والے دہشت گردوں میں تفریق کیلئے ایک سسٹم قائم کیا جائے، جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکے کہ ان میں سے کون خطرناک اور کون نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کے عہدیدار اور سابق فرانسیسی جج نے زور دیا کہ بین الاقوامی برادری دہشت گردی کے خلاف جنگ کیلئے ایک عدالتی نظام مرتب کرے، اس حوالے سے سست عدالتی نظام میں بہتری لانے کیلئے انھوں نے انٹرنیٹ سے مدد لینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ دہشت گردوں کے حوالے سے گوگل، ٹوئٹر اور مائیکرو سوفٹ سے مدد لی جاسکتی ہے۔
انھوں نے اصرار کیا کہ ان تمام اقدامات پر عمل کرنے کیلئے 'آزادی اظہار رائے کی خلاف ورزی' نہیں ہونی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا خدشہ موجود ہے'۔
خیال رہے کہ امریکا میں 11 ستمبر 2001 میں ہونے والے دہشت گردی کے حملوں کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے نمائندوں پر مشتمل 'انسداد دہشت گرد' کی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔